جمعرات، 9 اگست، 2012

گاوں میں کیوں نہیں جانا چاہتے ڈاکٹر؟


گاوں میں کیوں نہیں جانا چاہتے ڈاکٹر؟
 
محمد علم ا للہ اصلاحی


ملک میں برسوں سے یہ شکایت رہی ہے کہ تربیت یافتہ ڈاکٹر گاؤں میں اپنے فرائض انجام دینانہیں چاہتے، جس کے نتیجے میں دیہی ہندوستان پوری طرح نیم حکیموں کے شکنجہ میںجکڑا ہوا ہے۔ اپنے یہاں اوسطا 1،700 کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہے۔ابھی حال ہی میں منصوبہ بندی کمیشن رپورٹ نے بھی کہا تھا کہ ملک میں چھ لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ یہاں ہر سال نئے ڈاکٹر پیدا تو ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے کئی اعلی تعلیم کے نام پر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں، جو پھر لوٹتے ہی نہیں،تو کچھ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے شہر ی چمک کے آگے سپر ڈال دیتے اور گاؤں میں اپنی خدمات دینے سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس پر قابو پانے کےلئے حالانکہ حکومت کی جانب سے مسلسل اقدامات کئے جاتے رہے ہیں،مگربدقسمتی یہ ہے کہ اس کے خوشگوار نتائج ہنوز مرتب نہیں ہوسکے ہیں۔ماضی میںڈاکٹروںکو خدمت خلق کااحساس دلاتے ہوئے ملک کی مقتدر شخصیات مثلاً بابائے میزائیل ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اور صدر جمہوریہ پرتبھا پاٹل وغیرہ نے بھی اپیل کی تھی کہ ڈاکٹر دیہاتوں کی جانب بھی توجہ دیں لیکن اس کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ ہاتھ نہیں آ سکا ۔اس سلسلہ میںیوپی اے سے قبل این ڈی اے کے زمانہ میں بھی بعض کوششیںہوئیں، مگر ڈاکٹروں کا رجحان گاؤں کی طرف نہیں بڑھ پایا ۔ابھی حال ہی میں اس صورتحال کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے صحت اور خاندانی بہبود کے وزیر غلام نبی آزاد نے کہاکہ ڈاکٹروں نے گاؤں نہیں جانے کی ٹھان لی ہے۔ ڈاکٹر اس کےلئے آگے نہیں آ رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اب ہم ایسی پالیسی لا رہے ہیں جس سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ڈاکٹروں کیلئے ایک سال گاؤں میں خدمت دینا لازمی ہوگا۔صحت اور خاندانی بہبود کے وزیر غلام نبی آزاد نے کہاکہ گاؤں میں ڈاکٹروں کی موجودگی بڑھانے کےلئے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ڈاکٹروں کو ایک سال تک گاؤں میں ہی پریکٹس کرنا لازمی کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں ڈاکٹروں کو بھیجنے کے مسئلے کا سامنا سابقہ وزراءکےلئے بھی چیلنج کن رہا تھا،اسی لئے اب حکومت دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی خدمات کو لازمی بنانے کیلئے قانونی تیاری کر رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کے تحت ہر ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو ایک سال تک گاؤں میں رہ کر ہی اپنی پریکٹس کرنی ہوگی اور جلد ہی اسے قانونی طور پر لازم کیا جائے گا۔ ان کے مطابق قانونی دفعات میںترمیم کے بعد دیہی علاقوں میں نہ صرف ڈاکٹروں کی موجودگی بڑھے گی بلکہ دیہی باشندوں کو بہتر صحت کی سہولت بھی دستیاب ہو سکے گی۔اگر ایسا ہوتاہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ گاوں کے اس ملک جس کے بارے میں گاندھی جی نے کہا تھا ” ملک کی ترقی گاؤں سے منحصر ہے گاؤں ہی ترقی ترقی کی اولین دہلیز ہے“ انھوں نے اپنے سوراج کے پیغام کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا اس کا مقصدہے کہ ہر گاؤں ایک مکمل جمہوریہ ہو، اپنی ضروری اشیاء کے لئے وہ کسی کا محتاج نہ رہے اس کے پاس خوراک، کپاس، کھیل کود، تفریح، تعلیم، صحت کی مکمل انتطام ہو“میں تبدیلی آئے گی اور حقیقی معنوں میں گاؤں خود کفالتی اور خودترقیاتی بن سکے گا۔اورتب ہی طاقتورہندوستان کا خواب پورا ہو سکے گا۔لیکن اسے کیا کہیں کہ اس سلسلہ میںحکومت کی مسلسل کوششوں کے باوجود ڈاکٹروں کا رجحان دیہی علاقوں کی طرف نہیں بڑھا ہے، حالت یہ ہے کہ موجودہ وقت میں زیادہ تر ڈاکٹر شہروں میں ہی رہ کر خدمات دینا چاہتے ہیں،ڈاکٹروں کے اسی رویے کی وجہ سے دیہی علاقوں میں طبی خدمات کی حالت خراب ہے۔حالانکہ اس بابت اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اس پر قابو پانے کے لئے حکومت نے سال 2009-10 قانون میں حکومت نے تبدیلی بھی کی ہے اور کہاہے کہ تین سال تک دیہی علاقوں میں خدمات دینے والے ڈاکٹروں کو ایم ڈی ڈپلومہ میں پچاس فیصد ریزرویشن فراہم کیا جائے گا۔ساتھ ہی نئے ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کے دیہی علاقوں میں ایک سال سروس دینے پر ایم ڈی میں دس فیصد، دو سال دینے پر بیس فیصد اور تین سال دینے والوں کو تیس فیصد اضافی نمبر دیے جائیں گے۔سرکار کے اس فیصلہ کو خوش آئند قدم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اس سے ضرور تبدیلی آئے گی یہ الگ بات ہے کہ گاؤں میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے اور بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے کی سمت میں یہ قدم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن حکومت کو اس سلسلہ میں استقامت سے کام لینا ہوگا کیونکہ یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ آج گاؤں میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی ہے، اس کےلئے کہیں نہ کہیں حکومت کی پالیسیاں بھی ذمہ دار رہی ہےں۔ سرکاری ڈاکٹر گاؤں میں خدمات فراہم کرنے کے بجائے شہروں میں ہی کام کرنازیادہ پسند کرتے ہیںحکومت ڈاکٹروں کو گاؤں میں بھیجنے کےلئے کئی بار سخت قوانین کا بھی سہارا لیتی ہے لیکن اس وقت وہ گاؤں جانے کے بجائے کام چھوڑنا ہی بہتر سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت کو ان کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ملک کے تقریبا دو لاکھ سے زیادہ شفا خانوں میں ڈاکٹر ندارد ہیں۔پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا پسندیدہ مقام شہر ہے،ایسے میں دیہی علاقوں میں طبی خدمات کی بدحالی فطری ہے۔یہاں ابھی بھی ملک کی 73 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔اور اس بابت دستیاب صحت کی سہولیات کو اگرجائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ شہروں کے مقابلے 15فیصدبھی نہیں ہے۔مرکزی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں 2083 افراد پر ایک ڈاکٹر اور فی 6 ہزار لوگوں پر ایک معاون نرس دستیاب ہونا چاہئے۔ لیکن کیا ایسا ہے نہیں ہر گز نہیں !کہنے کوتو ملک میں ڈاکٹر اور آبادی کا تناسب عالمی ادارہ صحت کی سفارش کے مطابق ہے۔لیکن باوجود اس کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی ہے۔ شہروں میں جہاں 662 کی آبادی کے بر عکس1 ڈاکٹر ہے، تو وہیں دیہی علاقوں میں 8333 کی آبادی کے تناسب سے 1 ڈاکٹر ہے۔ اس مثال سے خودبہ خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں اور آبادی کے تناسب میں کتنا بھاری فرق ہے۔ ملک میںفی الوقت آٹھ لاکھ 56 ہزار 65 ڈاکٹر رجسٹرڈ ہیں، ان میں سے زیادہ تر کی خدمات شہروں کی محض 20 سے 30فیصد آبادی کو مل رہی ہے۔ وہیں دیہی علاقوں کے 70فیصد سے زیادہ لوگوںکی رسائی کسی قابل ڈاکٹر تک نہیں ہو پاتی۔ ظاہر ہے کہ دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی اس وجہ سے نہیں ہے کہ ڈاکٹر نہیں ہیں؟ بلکہ یہ ڈاکٹر گاؤں میں جانا پسند نہیں کرتے۔انھیں گاؤں کے بہ نسبت شہر میں کام کرنازیادہ اچھا لگتا ہے۔ایسے میں اب دیر سے ہی سہی وزارت صحت اس سمت میں موثر قدم اٹھانے جا رہا ہے،تو یہ امید بہر حال رکھنی چاہئے کہ اس کے مثبت نتائج بر آمد ہونگے ،جاتے جاتے یہ بات بھی یاد لاتے چلیں کہ دیہی علاقوں میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ طبی خدمات فراہم کرنے کےلئے یو پی اے حکومت نے اپنے گزشتہ دور اقتدار کے دوران قومی دیہی صحت مشن کی شروعات کی تھی۔ اس منصوبہ کا مقصد ملک کے دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں غریب خاندانوں تک قابل اعتماد اور سستی طبی سہولیات مہیا کرانا تھا۔ منصوبہ کا بجٹ کروڑوں روپے ہے لیکن ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے یہ حوصلہ افزا منصوبہ بھی پروان نہیں چڑھ پایا۔ آج بھی ملک میں زیادہ تر بنیادی صحت مرکز اور کمیونٹی ہیلتھ سینٹر بغیر ڈاکٹروں کے چل رہے ہیں، حکومت کو اس مشن کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے ۔ابھی حال ہی میں وزارت کی ہدایت پر میڈیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی طرف سے ملک کے تقریبا تمام اضلاع میں میڈیکل ا سکول کھولنے کی بھی تجویز سامنے آئی ہے ۔جس کےلئے دیہی ڈاکٹروں کے بےچلر آف رورل صحت کی دیکھ بھال کا نصاب بھی مقرر کر لیا گیا ہے ۔جس سے دیہاتیوں کی بیماریوں کا موثر علاج کیا جا سکتا ہے۔ یہ اور اس جیسے دوسرے منصوبے کو فورا عملی جامہ پہنانا چاہئے دیگر معاملات کی طر ح اس جانب سست روی کسی بھی طرح سے بہتر عمل قرار نہیں دیا جا سکتا کیونہ صحیح معنوں میں اگرایسے منصوبے پروان چڑھتے ہےں تو ملک کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔یہ یا اس جیسے اور بھی کئی منصوبے جس کا ہم نے ذکر کیا اگر کامیاب ہو جاتے ہیں توایک دو نہیںتقریبا چھ لاکھ سے زیادہ گاؤں کو صحت سے متعلق بنیادی سہولیات ملنی شروع ہو جائے گی،کیونکہ آج کی تاریخ میں گاؤں کی 95فیصد عوام صحت کی سہولیات کےلئے جھولاچھاپ ڈاکٹروں پر منحصر ہے۔جنھیں طبی علم بالکل نہیںہوتامگر حکومت کی جانب سے کوئی سبق آموز کاروائی نہ کئے جانے اور عام آدمی کی طرف سے بھی ان کی موجودگی کی مخالفت نہ کرنے کے سبب معاملہ نازک ہوتا جا رہا ہے اور اس کا مہلک اثر مستقل مریضوںکے اوپر پڑ رہا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بڑی تعداد میں بیماریوں کی نہ تو تشخیص ہوپا رہی ہے اور نہ ہی کوئی حل بلکہ الٹامریضوں کو ہی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑرہا ہے ۔مجموعی طور پر آج ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی کو پاٹنا ہے،اس سلسلہ میں بھارتی طبی کونسل نے دیہی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کےلئے، الگ سے ڈگری اور 3 سال تک دیہی علاقے میں خدمات دینے والے طلبہ کےلئے پوسٹ گریجویٹ میں داخلہ کےلئے 25 فیصد سیٹیں محفوظ کرنے کا حکومت کو مشورہ دیا ہے۔ اس منصوبہ پر صحت و خاندانی بہبود کی وزارت، دو دور کی بات کر چکا ہے اور فیصلہ آخری دور میں ہے۔حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی ہوگی کیونکہ تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے گاؤں کے غریبوں کا جھولاچھاپ ڈاکٹروں پر انحصار ان کی مجبوری ہے،اگر اس کی اصلاح کے لئے فورا اقدامات نہ کئے گئے تو محض خوبصورت اور اچھے قانون بنا لینے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔ ہمارے ملک کی خرابی یہی ہے کہ یہاں قانون اور کمیشن تو بہت بنتے ہیں لیکن جب اس کو عملی جامہ پہنانے کی بات آتی ہے تو پتہ نہیں کیوں ’ٹائیں ٹائیں فش ‘والا معاملہ ہو جاتا ہے ،اور ساری امیدیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔