اتوار، 9 جون، 2013

بارہویں کا رزلٹ : حکومت ،سرپرست اور بچوں سے کچھ باتیں


محمد علم  اللہ اصلاحی
ہندوستان میں میٹرک کے بعد بارہویں کے امتحان کو زندگی کا سب سے اہم موڑ تصور کیا جاتا ہے ،والدین اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ یہیں سے تمہاری زندگی کا سفرطے ہونا ہے،اس میں کامیابی سے ہمکنار ہو گئے تو گویا آگے کی منزل انتہائی آسان اور سہل ہے۔بات تقریباً دُرُست بھی ہے کیونکہ اسی کے بعدہمارے بچے کیا کریں گے اس کا فیصلہ ہوتا ہے ،طرح طرح کے کورسز اور پروگراموں میں داخلہ کا ہدف بھی اسی کے بعد متعین کیا جاتا ہے ،شاید اسی سبب سے پورے ملک میں اس رزلٹ کاانتہائی شدت سے انتظار رہتا ہے ،کیا بچے ،کیا والدین کیا حکومت سبھی اس کو لے کر فکر مند اور تشویش میں مبتلا رہتے ہیں بعض ریاستوں میں اس کے پیش نظر بجلی اور ٹرانسپورٹیشن کی باضابطہ سروسیز مہیا کرائی جاتی ہیں تاکہ بچوں کو پریشانی نہ ہواور وہ اچھے ڈھنگ سے اپنے امتحانات دے سکیں ،اس معاملہ کولے کر بچوں کے اوپر اس قدر دبا ہوتا ہے کہ ناکامی یا کم نمبر آنے کی صورت میں وہ خودکشی جیسے انتہائی قدم بھی اٹھالیتے ہیں۔دہلی میں اس قسم کی وارداتیں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں ،اس کے باوجود بھی کہ حسب معمول یہاں کی وزیر اعلی شیلا دکشت نے پہلے ہی ہر قسم کی حوصلہ افزائی کے علاوہ کم سے کم بچوں کو فیل کئے جانے کا الٹی میٹم دیا ہوا تھا، اب کی بھی ایسا ہی ہوا اور دہلی جیسے شہر میں رزلٹ ان کے یاسرپرستوں کے منشا کے مطابق نا آنے سے دو بچوں نے خود کشی کر لی۔دہلی اور اتر پردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں سے بھی اس قسم کی خبریں سننے کو ملی ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے یا ایسا کیوں ہوا ؟‘اس پربات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امتحانات کے رزلٹ پرایک نظر ڈال لی جائے۔ چونکہ ہمارے ملک میں اس کے لئے کوئی ایک بورڈ متعین نہیں ہے بلکہ مختلف ریاستوں کے اپنے الگ الگ بورڈ اور الگ الگ نصابات ہیں۔اس لئے ہر ریاست کا تناسب اور رزلٹ بھی الگ الگ ہے۔ہم یہاں ہر ریاست کے ہر بورڈ کی بات نہیں کریں گے۔کیونکہ تمام ہی ریاستوں کے تمام ہی بورڈوں کا نہ تو ہمارے پاس کوئی ڈاٹا ہے اور نا ہی بیورا۔پھر یہاں پر ہر ایک کی تفصیلات فراہم کرنا بھی ہمارا مقصد نہیں ہے۔اس لئے ہم یہاں سینٹرل بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن ( سی بی ایس ای) بورڈکی بات کرتے ہوئے دیگر ریاستوں میں بھی اس کی صورتحال اور بارہویں کے بعد ہونے والے واقعات و حالات کا تجزیہ کریں گے۔

امسال سی بی ایس ای کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس سال مجموعی طور 9،44،721 طلباءنے بارہویں کا امتحان دیا تھا جو گزشتہ سال کے مقابلے تقریبا 16فیصد زیادہ ہے۔اب کی کامیاب ہونے والے طلباءمیں لڑکیوں کا فیصد 87.89رہی جبکہ 77.78فیصد لڑکوں نے بھی کامیابی حاصل کی۔سی بی ایس ای کے نتائج ہر سال بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔کامیاب ہونے والے طلبائکی تعداد کے حساب سے بھی اور ان کے نمبرات کے لحاظ سے بھی یہ بتایا جا رہا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلہ 67فیصد زیادہ طلبا نے 95فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کئے ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ 90فیصد یا 85فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد بھی بڑھی ہوگی۔ظاہر ہے 90یا 95فیصد نمبرات حاصل کرنے والے طلباءذہین بھی ہونگے اور محنتی بھی اور ایسے شاندارنتائج سے ان کے والدین خوش بھی ہونگے۔لیکن کم از کم دہلی میں 95فیصد نمبر بھی اپنی پسند کے کالجوں میں اپنے پسند کے کورسز میں داخلہ کی گارنٹی نہیں ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امسال کٹ آف بھی اوپر جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ کچھ نامی کالجوں میں پہلا کٹ آف 95فیصد سے کافی اوپر ہو۔یہاں تک کہ اتنے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلباءبھی اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ کئی اداروں کو لاٹری کا متبادل سوچنا پڑ رہا ہے۔اگر کسی کو 95فیصد نمبر لیکر بھی من چاہی تعلیم مہیا نا ہو یا پھر لاٹری کے بھروسے رہنا پڑے تو یقینا یہ بھی تشویش ناک امر ہے۔ملک میں ضروری تعلیم کا حصول اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کمی ہے۔یہ تفاوت اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ تعلیم کی لگاتار گرتے معیار سے رفتہ رفتہ ہوا ہے۔اس کا خمیازہ وہ پیڑھی بھگت رہی ہے جو زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے کی ہوڑ اور دوڑ میں سب کچھ بھول کر شامل ہو رہی ہے۔والدین ،سرپرست ،کوچنگ سینٹر ،اساتذہ ،اسکول سب دوڑ میں کامیابی کے نسخے تلاش کر رہے ہیں حالانکہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ زیادہ نمبرات من چاہے تعلیم کا حقدار بھی دیں گے۔

ماہرین کے مطابق امسال کا یہ بیچ پچھلے سال کے بیچ سے اس معاملہ میں الگ ہے کہ اس کے سامنے دسویں کے بورڈ امتحانات دینے کے مصیبت نہیں تھی۔اس نے پہلی بار سیدھے بارہویں کے بورڈ امتحانات دِیے ہیں۔ظاہر ہے اس کا ایک خاص تناؤ بچوں پر رہا ہوگا۔ممکن ہے اپنے نمبر سے نا مطمئن طبقہ اس کو بھی ایک فیکٹر کے طور پر اپنے تشویش یا احتجاج میں شامل کر لے۔اس مرتبہ ایک اور بھی نئی بات یہ ہے کہ ملک کے معروف انجینئرنگ اداروں میں داخلہ کے لئے کامن ٹیسٹ (جے ای ای )میں اس امتحان کا نمبر بھی کچھ حد تک فیصلہ کن ہوگا۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچوں کے لئے آگے کا راستہ مشکل ہو گیا ہے۔سچائی یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں نمبر کے ہوڑ کے کے خلاف ایک ماحول بنا ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بارہویں کا نتیجہ ہی کسی کی زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہے۔وہ زمانہ لد گیا جب فرسٹ پوزیشن یعنی60 فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کرنا ہی دسب سے بڑا ماحصل ہوا کرتا تھا ،اور 75فیصد تو انتہائی اہم تصور کیا جاتا تھا۔ایسے لوگوں کو آگے داخلہ جات میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی تھی تاہم اب ایسی باتیں نہیں ہیں نمبروں کو لے کر مائنڈ سیٹ یوں ہی نہیں بدلا ہے۔پچھلے کئی سالوں میں ہندوستان میں واقعی قابل ذکر تبدیلی آئی ہے۔اب ہر طرح کے بچوں کے سامنے پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اختیارات موجود ہیں۔کئی نئے پروفیشنل کورسیز سامنے آئے ہیں اور نئےادارے بھی کھلے ہیں۔اب روزی روزگار کو لے کر سماج میں چلی آ رہی بوڑھی سوچ ختم ہو رہی ہے۔جس کا فائدہ یقینا اس بیچ کے بچوں کو ملے گا۔

یہاں پر یہ بات عرض کر دینے کی ہے کہ2012 میں یہی تناسب لڑکوں کا 75.80اور لڑکیوں کا پاس فیصد 86.21رہا تھا پچھلے سال کے مقابلہ اب کی لڑکیوں کا 01.77فیصد کامیابی کا گراف بڑھا جبکہ لڑکوں کا 01.98فیصدیعنی تعلیمی اعتبار سے دونوں کا گراف ایک ایک فیصد بڑھا مگر اس کے باوجود لڑکیوں نے بازی ماری۔ایک ایسے وقت میں جب لڑکیوں کی حفاظت اور عزت کا سوال معاشرے میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہو لڑکیوں کی یہ کامیابی یقیناً خوش کن اور قابل تحسین ہے ،اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی کامیابی کو معیار نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اگر لڑکیاں تعلیم میں اتنی ہی تیزہوتی ہیں تو اعلی تعلیم میں ان کا گراف کم کیوں ہو جاتا ہے اس کی بہت ساری وجوہات ہیں اور اس کا جواب دیا بھی جا سکتا ہے۔لیکن بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لڑکیوں میں لڑکوں کے مقابلے سنجیدگی اور سمجھ بوجھ کی صلاحیت کافی ہوتی ہے ان میں محنت اور لگن کا جذبہ بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔اس لئے مثبت ماحول ملنے پر وہ بہتر اور اچھا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔مگر ہمارے معاشرے اور سماج کی یہ بد قسمتی ہے کہ انھیں خاطر خواہ مواقع فراہم نہیں کئے جاتے اور تمام طرح کی ہدایات اور قانون کے باوجود بھی ان کے حقوق مار لئے جاتے ہیں ،شایدلڑکیوں کا یہ’ احساس‘بھی انھیں خود کو کامیاب بنانے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ہر طرح سے مساوات اور انصاف کی بات کئے جانے کے باوجود لڑکیوں کو وہ حق نہیں ملتا جو واقعی انھیں ملنا چاہئے اور لڑکیوں کا یہی احساس انھیں آگے بڑھنے اورمحنت کرنے پراکساتا ہے کہ اس کے ذریعہ انھیں عزت و احترام بھی ملے گا اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑی بھی ہو سکیں گی۔

ہمارا مقصد یہاں پر لڑکے لڑکیوں کا موازنہ کرانا نہیں ہے ،مگر یہ بات بہر حال کہنے کی ہے کہ حکومتوں اور اداروں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔کہ اسی سے ملک بھی ترقی کرے گا اور ہمارا سماج اور معاشرہ بھی اعتدال کی جاب گامزن ہو سکے گا ،اسی سے توازن بھی قائم ہوگا اور سوچ و فکر میں بھی تبدیلی بھی آئے گی۔ملک کے مختلف حصوں میں کئی طلباءکا ناکامی یا کم نمبر آنے کے بعد خود کشی کرنے کی بھی اطلاعات ہیں ،اس سلسلہ میں اصل ضرورت ہے خود اعتمادی پیدا کرنے اور احساس کمتری سے باہر نکالنے کی ہے۔بچہ کے اوپر بلا وجہ دبا نہ ڈالیں ،اسے ڈرانے ،دھمکانے کی کوشش نہ کریں اس کی عزت نفس کا خیال کریں ،کیریر کے دیگر بہتر امکانات کی تلاش کریں ،نفسیات کو ٹٹولیں یہ کام والدین اور ذمہ داران کے کرنے کا ہے۔وہ انھیں بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی نکھارنے کا موقع دیں ،ان کی خواہش اور جذبہ کو بھی جانیں کہ وہ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں اور کس میں بہتر کر سکتے ہیں۔
وہیں حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے انتظامات کرے کہ کم نمبر لانے والے طلباء بھی اچھے کورسز میں ایڈمیشن لے سکیں۔پچھلے کچھ سالوں سے ملک کے معروف کا لجوں کا کٹ آف بڑھتا گیا ہے۔اس جانب بھی غور کیا جاناہے کہ سال در سال کامیاب ہونے والے طلب کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔اور ضرورت کے حساب سے ابھی اچھے کالج اور انسٹی ٹیوشن نہیں ہیں،اور جو ہیں بھی تو وہ کچھ ہی علاقوں میں سمٹے ہوئے ہیں۔پیشہ ور تعلیم دینے والے نجی ادارے بھی راجدھانی اور بڑے شہروں میں ہی کھل رہے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے 80فیصدی میڈیکل کالج ساتھ انڈیا میں ہیں۔حکومت کو توازن برقرار رکھنے کے لئے ہر ریاست پر یکساں توجہ دینی ہو گی ،اس بابت تعلیمی اداروں کی مرکزی حیثیت سر کاری ہی نہیں پرائیوٹ اداروں کے لئے بھی ہونا چاہئے اس پر بھی مرکزی حکومت کو غور کرنا چاہئے ،ساتھ میں تعلیم سب کے لئے ارزاں ہو اس کوکیسے ممکن بنائیں اس جانب بھی توجہ دیں۔تبھی شائننگ انڈیا ،طاقت ور انڈیا اور ترقی یافتہ انڈیا کا خواب پورا ہو سکے گا۔

ہمارے ملک کے بہت سے اسکولوں اور کالجوں میں ابھی بھی بہت ساری بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ،انفراسٹکچر کی کمی ہے ،بہت سے ادارے ایسے ہیں جہاں بیت الخلاءتک کاالگ الگ انتظام نہیں ہے ،اس قسم کی خبریں برابر اخباروں میں آتی رہتی ہیں ،اساتذہ کی بھی کمی کی شکایت ہوتی ہے۔خاص کر اردو اساتذہ کے کمی اورسرکاری اردو میڈیم اسکولوں کونظر انداز کئے جانے کی بھی باتیں ہوتی رہی ہیں،اردو میڈیم کے طلباءکو اردو میں کتابیں دستیاب نہ ہونے کی بھی اطلاعات ملتی رہی ہیں ان سب کے باوجودبھی خبر ہے کہ اردو میڈیم کے بچوں نے بھی اطمینان بخش کامیابی حاصل کی ہے ،اس جانب حقیقت کیا ہے حکومتوں کو اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر اس قسم کی خبریں واقعی درست اور صحیح ہیں تو اسکی انکوائری کروانی چاہئے۔اور اس کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری ملک میں کسی خاص فرقہ کے ساتھ اس قسم کا سوتیلا رویہ نہ تو زیب دیتا ہے اور نا ہی انسانیت اور ملک کے حق میں مفید ہے۔

ایک بات اور جو بطور خاص مسلم بچوں اور والدین سے کرنی ہے وہ یہ کہ امسال مسلم طلبا و طالبات کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں جس کے لئے دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ان نتائج میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہم شان سے سر اٹھا کر اور سینہ تان کر چل سکیں۔ان بچوں کے نمبر اتنے اچھے نہیں ہیں کہ سب کو کالجوں و دیگر یونیورسٹیوں میں اچھے مضامین یا کورسوں میں داخلہ مل سکے اور وہ اس مقابلہ جاتی دور میں اچھا کیر یر بنا سکیں۔بورڈ کے امتحانات میں بہت کم طلبا و طالبات کی تعداد ایسی ہے جنھوں نے 90فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں۔موجودہ زمانہ کے مد نظر مسلم طلباءو طالبات کو 90فیصد نمبرات حاصل کر نے کے لئے کئی سطح پر سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔

بورڈ کے موجودہ نتائج صرف اس معنوں میں ذرااطمینان بخش ہیں کہ امتحانات دینے والے زیادہ تر طلبا کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔یعنی وہ اپنی کلاسوں میں پاس ہو گئے ہیں اور مسلم بچوں کا پاس فیصد بڑھ گیا ہے۔تاہم یہ دیکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ مسلم بچوں نے کس سطح کی کامیابی حاصل کی ہے۔کیا وہ اپنی پسند کے کورسیز اسکولوں یا کالجوں میں داخلہ لے سکیں گے یا اس کے لئے انھیں اب بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ پاس ہونے کے باوجود ’خاکم بدہن‘اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے کے اہل ہی نہ ہوں۔

نتائج پر اگر نظر ڈالی جائے کہ کتنے مسلم بچوں نے 90فیصد تک نمبر حاصل کئے ہیں تو اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں لیکن حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں۔90 فیصد تو دور کی بات معدودے چند بچے ہی 75 فیصد کے امتیازی نشان تک پہنچ پائے ہیں۔اور اگر اردو میڈیم اسکولوں پر نظر ڈالیں یہ یہ نتائج اور بھی ناگفتہ بہ نظر آتے ہیں۔اور چند طلبا و طالبات ہی پہلے ڈویژن یعنی 60 فیصد کے ہندسے کو پار کر پاتے ہیں۔کئی اردو میڈیم اسکولوں کے پرنسپل نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے جس میں انھوں نے بر ملا یہ کہا کہ اس سال دیگر سالوں کے مقابلہ مقدار( کوانٹٹی) تو بہتر ہے لیکن معیار(کوالٹی) نہیں۔اس لئے اس جانب توجہ دینی ہوگی اور جائزہ لینا ہوگا کہ کمی کہاں رہ گئی ہے۔امتحان میں صرف پاس ہو جانے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ جب یہ مسلم بچے کالج یا یونیورسٹی جائیں گے تو وہاں داخلہ کے لئے محض مسلمان بچوں کی میرٹ ہی جاری نہیں کی جائے گی بلکہ سبھی طلبا کا مقابلہ ایک ساتھ ہوگیا۔حق تعلیم قانون کے نفاذ نے بچوں کو پاس ہونے کی فکر سے آزاد کر دیا ہے اور اب ہمیں اپنے نتائج کو بلند کرنے کی فکر کرنی ہی ہوگی ۔