جمعرات، 9 اگست، 2012

ریزرو بینک کی پالیسی اور مسلمان



اقلیتوں پربینکوں کی فیاضی

مسلمانوں میں انقلابی تبدیلی کے امکانات

محمد علم اللہ اصلاحی

  ریزرو بینک کے ماسٹر سرکلر میں ترمیم کے بعداقلیتوں کی پسماندگی دورکئے جانے کی شعوری کوششوں کااحساس نمایاں ہوتا دکھائی دے رہا ہے،کیونکہ ریزرو بینک کی ہدایت پرملک کے بینکوں نے اقلیتی طبقہ کو گزشتہ پانچ برسوں میں ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے کے قرض مہیا کرائے ہیں،جو آزادی کے بعد ساٹھ سال میں دئے گئے قرضوں کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس میں یعنی قرض لینے والوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے ۔مسلمانوں پر بنیاد پرستی کاالزام عائد کیاجاتا رہا ہے اور خصوصاً عورتوں کے بارے میں ہمیشہ سے یہ کہا جا تا رہا ہے کہ انھیں دبا کر رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے مردوں کے مقابلہ ان کی حالت زیادہ خراب ہے ۔اس خبر کے آنے کے بعد اس طبقہ کو جوہمیشہ مسلم طبقہ کی خامیاں تلاش کرنے میں عملاً یقین رکھتاچلا آرہا ہے،اس کے نظریات میںتبدیلی پیدا ہوناخلاف امید نہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں انقلابی تبدیلی کے امکانات کے درمیان یہ کہاجانے لگا ہے کہ مسلمان مین اسٹریم میں آنے لگے ہیں اور اب پہلے جیسے حالات نہیں رہ گئے ۔

  یہاں پر اس بات سے قطع نظر کہ واقعی اس سے تبدیلی آئے گی بھی یا نہیں، قرض کی فراہمی کو بہر حال ایک خوش آئند قدم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں بینک کے جملہ ذمہ داران اور خود یو پی اے سرکار بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس پالیسی کے نفاذسے مسلمانوںکے درمیان مالی مفلوک الحالی کے خاتمہ کی امید پیدا ہوئی ہے۔اب سے پہلے بینکوں کی طرف سے اقلیتی طبقہ کو صرف دو سے تین فیصد ہی قرض مل پاتے تھے۔اس سلسلہ میں پرائیوٹ بینک تو درکنار خود سرکاری زمرہ کے بینک بھی مسلمانوں کو قرض دینے کے معاملہ میں اگر تفریق نہیں برتتے تھے تو زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے تھے ۔جس کی خبریں مستقل اخبارات میں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی رہتی تھیں۔بعض جگہوںسے تواقلیتوںکو بینکوں سے بھگا دینے اور ذلیل و بے عزت کئے جانے تک کی خبریں بھی ملتی رہی تھیں ۔اس کی تصدیق اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نیشنل مائنارٹی کمیشن نے بھی کی تھی اور اس نے اس بابت فورا اصلاح و سدھار کی سفارش بھی کی تھی۔ اس سلسلہ میںکمیشن نے کہا تھا کہ اسے(کمیشن کو) مسلمانوں کی طرف سے بینکوں کے خلاف بہت ساری شکایات ملی ہیں،کمیشن نے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر بتایا تھا کہ بہت سے مسلمانوں کو مبینہ طور پر یا تو بینک اکاو ¿نٹ کھولنے نہیں دیاجاتا یا پھر انہیں قرض دینے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے ،اور یہ بھی کہ یہ اعدادوشمار پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنا ہو گئے ہیں،یہاں پر یہ باتیں یاد رکھنے کی ہے کہ کمیشن نے یہ باتیں گذشتہ پانچ سالہ منصوبہ کے شروعات میں ہی کہی تھیں ۔اس وقت کمیشن نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ مبینہ امتیازی سلوک آندھرہ پردیش میں سب سے زیادہ دیکھا گیا جہاں نوے ہزار مسلمان حکومت کی طرف سے ملنے والی وظیفے کے رقم بینک میں جمع نہیں کرا پائے۔کمیشن نے یہ بھی کہا تھا کہ کیرلا اور آسام میں مسلمان کھاتے داروں کی تعداد آدھی ہو گئی ہے۔کمیشن کے علاوہ ملکی بینکوں کے ذریعہ مختلف طرح کے قرض فراہم کرنے کی پالیسیوں کا فائدہ اقلیتوں کو نہیں مل پانے پر سچر کمیٹی نے بھی سوال اٹھائے تھے،اور اس کی روشنی میں ایسی کئی سفارشات کی تھیں جن سے مسلمان بھی معاشی و سماجی اعتبار سے مضبوط ہو سکیں ۔سچر کمیٹی نے تو یہاں تک کہاتھا کہ ہندوستانی مسلمان اقتصادی اور تعلیمی معاملات میں دلتوں سے بھی زیادہ پستی میں ہیں ۔کمیٹی نے اسے ثابت کرنے کے لئے اعداد و شمار بھی پیش کئے تھے ۔جسے حکومت سمیت سیکولر پسندطبقہ نے بھی تسلیم کیا تھا ۔

 شاید اسی وجہ سے 1 جولائی، 2007 کو ریزرو بینک نے اپنے سرکلر میں ترمیم کر اقلیتوں کو زیادہ سے زیادہ قرض مہیا کرانے کی ہدایت دی تھی، چونکہ اس وقت لوگوں نے جم کر ہنگامہ آرائی کی تھی اورچہار جانب سے حکومت پر سوالیہ نشان لگایاجارہاتھا، اس لئے صفائی پیش کرتے ہوئے وزیر مالیات پی چدمبرم نے پارلیمنٹ میں اپنی بجٹ تقریر میں مسلمانوں کو بینکوں سے قرض دلانے کا وعدہ کیا تھا اور انھیں دنوںاپنے وعدہ کو پورا کرتے ہوئے مرکز نے قومی بینکوں کے سربراہوں کی میٹنگ کے دوران انہیں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ مسلم اکثریتی علاقوں میں اپنی تجارتی سرگرمیاں بڑھائیں اور مسلمانوں کی گھنی آبادی والے علاقوں میں اپنی شاخیں کھولیں ۔ظاہر ہے اگر حکومت کسی مسئلہ کو سنجیدگی سے لے اور اس پر صدق دل سے کاروائی کرے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوںگے ہی ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں حکومتیں مسلمانوں کے مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتی ہی نہیں۔ اسی کا نتیجہ رہا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مستقل دانستہ طور پر عصبیت کا رویہ اپنایا گیا۔ان کے ساتھ ظلم و ستم کا سلسلہ روا رکھا گیا اور صنعت و معیشت میں ایک سازش کے تحت ان کو پیچھے رکھنے کی کوشش کی گئی جس کے سبب ان کی حالت دن بدن دگر گوں ہوتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ حاشیہ سے بھی نیچے چلے گئے ۔انھوں نے ملک میں رہتے ہوئے اتنی پریشانیاں جھیلیں کہ اگر تھوڑی سی بھی راحت ملتی ہے اور ان کے حقوق کا ذرا بھی خیال رکھا جاتا ہے تو وہ خوش ،اور کھلکھلا اٹھتے ہیں ۔

 یہی وہ فطری سبب ہے کہ بینکوںکے ذریعہ قرض کی فراہمی میںفرخدلی دکھانے پر مسلم طبقہ کی جانب سے خوش آمدید کہاجارہا ہے۔واضح رہے کہ اس ہدایت کے بعد ملک بھر کے بینکوں کی طرف سے 31 دسمبر، 2007 کے بعد اب تک کل 154789.90 کروڑ کے قرض اقلیتی برادری کے لوگوں کو تقسیم کئے جا چکے ہیں،یہ تخمینہ علاقائی قرض کا 14.83 فیصد ہے۔اقلیتی امور کے ریاستی وزیر ونسنٹ ایچ پالا کے مطابق حکومت مسلمانوں کے سماجی، تعلیمی اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کےلئے مختلف معیار کی جانچ کر رہی ہے۔ اس نے سچر کمیٹی کے مشوروں کی بنیاد پر اہم منصوبے کی شروعات کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 2007 سے اب تک مسلم اکثریت کی آبادی والے اضلاع میں بینکوں نے 3236 شاخیں کھولی ہیں۔اقلیتی طبقہ کی خواتین میںسرمایہ کاری کی خاطر قرض کوفروغ دینے کے لئے چھ لاکھ سے زیادہ اکاو ¿نٹ کھولے گئے ہیں۔اس مدت میں مسلم خواتین کو 6611.87 کروڑ کا قرض مہیا کرایا گیا ہے۔شاید اسی وجہ سے کانگریس کے ہمنوا یہ کہہ رہے ہیں کہ یو پی اے حکومت کی پہل پر اس کا براہ راست اثر اقلیتوں کی اقتصادی حالت پر نظر آ رہاہے۔اس میں کتنی سچائی اور حقیقت ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔کچھ لوگوں کایہ بھی کہنا ہے کہ ایسے خوشنما وسبز باغ دکھا کر سرکار محض مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اسے مسلمانوں کا ووٹ حاصل ہو جائے۔اگر حکومت واقعی مسلمانوںکی ہمدرد ہے تو سچر کمیٹی اور رنگا ناتھ کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرے ۔

 اس بابت مسلم دانشوروں کے ایک طبقے کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمانوں کو اپنی حالت سدھارنے کے لئے خود ہی اقدامات کرنے ہونگے۔ ان کے مطابق مسلمان لیڈروں کی ترقی کےلئے حکمت عملی، تبدیلی اور تعلیم کے پھیلاو ¿ کے لئے سر گرم ہونے کے بجائے صرف شکایت کرنے کی عادت ہے۔صرف اپنی چھاتی پیٹنے سے طویل مدت میں بھی کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔مسلم طبقے کو خود اپنے مفاد کے لئے کام کرنا ہوگا۔اسے اپنی ترقی کے لئے اپنے دانشورانہ اور مادّی وسائل کو متحرک کرنا ہوگا۔تو کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوری ملک میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اقلیت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کرے۔کیونکہ زیادہ تر مسلمان کمزور طبقات جیسے او بی سی ، دلت اور قبائل (ایس سی اور ایس ٹی)سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے بقول مسلم طبقے میں افسوسناک حد تک تعلیم کا فقدان ہے اور بے انتہا غربت کے سبب وسائل کی بھی قلت ہے۔اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مسلمان خود وسائل یکجا نہیں کر سکتے۔ ایسے میں حکومت کی اس روشن خیال پالیسی سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت میں بہتری کے اشارے ملنے کے امکانات ہیں۔

 گلوبلائزیشن کے اس دور میں ہر وہ چیز عالمی بازار میں فروخت ہو رہی ہے جس کی مارکیٹنگ اچھی اور جدید طریقہ سے کی جائے۔ اس کے لئے پیداواری مرحلہ سے لے کر مارکیٹنگ کے مرحلہ تک میں زیادہ سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی کمی کا فائدہ آڑھتی اور بچولئے اٹھاتے ہیں اب حکومت نے بینکوں سے قرض فراہمی کی راہ ہموار کر کے دستکاروں کے لئے ترقی اور خوشحالی کا دروازہ کھول دیا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت انہیں خود اپنے آپ میں پیدا کرنی ہو گی ۔انسان گھوڑے کو کھینچ کر ندی تک لے جا سکتا ہے لیکن پانی گھوڑے کو خود ہی پینا ہوتاہے۔ وہی حالت یہاں کے مسلمانوں یا دیگر طبقوں کے ساتھ ہے۔ حکومت انہیں سہولیات فراہم کر سکتی ہے سہولیات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت تو خود ان میں ہی ہونی چاہئے۔

 سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں تقریباً 103 اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں قالین، لکڑی، چکن، تالا، قینچی، ہینڈلوم، پاورلوم وغیرہ ان کے خاص کاروبار ہیں۔زراعت کے بعد دستکاری آج بھی روزگار فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور دستکاری زیادہ تر مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہتی ہے ۔سرمایہ کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی اس صلاحیت اور فن کا فائدہ سود خور مہاجنوں نے بھی اٹھایا اور لالچی و خود غرض تاجروں نے بھی۔ اندرا گاندھی نے بینکوں کو قومی زمرہ میں لیا ہی اسی مقصد سے تھا کہ کسانوں دستکاروں اور غیر منظم زمرہ کے دیگر ضرورت مندوں کو آسانی سے قرض مل سکے اور وہ اپنے فن کو ترقی دینے کے ساتھ ہی ساتھ ہندوستانی معیشت کی بہتری میں اپنا اہم کردار بھی ادا کریں ۔لیکن بینکوں کے رویہ میںتبدیلی نہ آنے کے سبب معاملہ جوں کا توں پڑا تھا، اب حکومت کی منشا اور نیت صاف ہو جانے کے بعد امید ہے کہ قومی زمرہ کے بینک سماج کے ایک بہت بڑے طبقہ کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ حکومت کو بھی اور اقدامات کرنے ہونگے کہ کیسے مسلمان ترقی کریں ان کے لئے اور بھی اسکیمیں جاری کرنی ہوںگی اور یہ احساس بھی کرنا ہوگاکہ 25کروڑ مسلمانوںکو پیچھے چھوڑ کر آگے نہیں بڑھاجاسکتا ۔اس بابت حکومت کے ساتھ ہی مسلم لیڈران و دانشوران دونوں کو بھی مسلمان طبقے کے لئے وسائل جمع کر کے کمزور طبقے کی مدد کرنی ہوگی۔ گلوبلائزیشن اور لبرلائزیشن کے موجودہ دور میں یہاں سے واپس جانے کی شاید ہی کوئی گنجائش ہے۔اور حکومت پر انحصار کی ایک حد ہے۔لبرلائزیشن ذاتی کوششوں اور قابلیت پر انحصار کرتا ہے، مسلمان طبقے کو ترقی اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے خود ہی اپنے اندرونی وسائل پیدا کرنے ہوں گے۔

رابطہ کا پتہ:۔

alamislahi@gmail.com