بدھ، 19 فروری، 2014

سچی خوشی

عرصہ گذرا اسی طرح کی ایک کہانی ہندی میں کہیں پڑھی تھی ،کہاں وہ اب یاد نہیں رہا ۔کہانی جب پڑھی تھی تو ہمارے چچا محترم مولانا ابراہیم ندوری نے اسے اپنے لفظوں میں لکھنے کے لئے کہا تھا ۔اس وقت میں چھٹی یا ساتویں کا طالب علم تھا ۔آج اپنی پرانی ڈائری میں مجھے یہ کہانی نظر آئی۔ دیکھا تو ایک عجیب خوشی کا احساس ہوا ۔معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ بلاگ میں شامل کر رہا ہوں ۔اسے عید کا تحفہ ہی سمجھئے ۔کہیں کوئی کمی یا غلطی ہو تو نشاندہی فرما کر شکریہ کا موقع دیں ۔

محمد علم اللہ اصلاحی
تیس دن کے روزوں کے بعد آج عید کا دن آیا تھا۔ اس مبارک موقع پر ہر شخص نئے کپڑے پہنے عید گاہ کی طرف خراماں خراماں چلا جا رہا تھا۔ہر شخص کی چال میں ایک عجب سی مستی تھی اور چہرے پر ایک میٹھی مسکراہٹ۔ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب سب کے چہرے ایک خاص قسم کی چمک سے دمک رہے تھے۔آج کل کے لوگوں کے چہروں پہ ایسی خوشی تو کبھی کبھی ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

صرف عید گاہ کے اندر ہی نہیں، بلکہ باہر تک لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مسجد کے مائک سے عید کی نماز کی اہمیت پر روشنی ڈالی جا رہی تھی۔اسی دوران امام صاحب فطرہ (عید کی نماز سےقبل دیا جانے والا صدقہ) ادا کرنے کے اصول بھی بتاتے جا رہے تھے۔کیونکہ عید کی نماز سے پہلے فطرہ ادا کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ ایسا نہ کرنے والے شخص کے روزے ناقص سمجھے جاتے ہیں۔

مسئلہ اجاگر کرنےکے بعد امام صاحب نے عید کی نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد انہوں نے خطبہ پڑھا ۔خطبہ کے بعد امام صاحب نے دعا کی جس پر تمام نمازیوں نے یک زبان ہو کر آمین کہا ۔دعا ختم ہوتے ہی تمام لوگ ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکباد دینے لگے۔ تقریبا آدھے گھنٹے تک مبارکبادیوں کا سلسلہ چلتا رہا۔اس کے بعد لوگ خوشی خوشی ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہوئے اپنےاپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔

خوشی کے اس اتھاہ سمندر میں شامل عامر جب اپنے ابو کے ساتھ عید گاہ کی سیڑھیاں اترنے لگا تو اچانک اس کی نظر سامنے کھڑے ایک لڑکے پر پڑی۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس وہ لڑکا درد بھرے لہجے میں کہہ رہا تھابابو جی، کچھ پیسے دے دو، ہم بھی ہنسی خوشی عیدمنا لیں "
اس کی حالت دیکھ کر عامر ایک لمحے کے لئے رکا اور پھر پیسے نکالنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن اس کی جیب خالی تھی۔ جلدی کے چکر میں وہ اپنے سارے پیسے گھر پر ہی چھوڑ آیا تھا۔ اچانک اسے پیچھے سے دھکا لگا اور اسے آگے بڑھنا پڑا۔

راستے بھر عامر اس لڑکے کے بارے میں سوچتا رہا۔ کب گھر آ گیا، اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ گھر میں تمام لوگوں سے سلام دعا کے بعد وہ اپنے کمرے میں جا بیٹھا۔اس کے چہرے کی خوشی اب کافور ہو چکی تھی۔اس کی آنکھوں میں بھکاری لڑکے کی تصویر اور کانوں میں اس کی آواز اب بھی گونج رہی تھی۔

کتنا غریب تھا وہ لڑکا اس کی آواز میں بھی کتنا درد و گدازتھا۔ بیچارے کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ عید کے دن بھی ٹھیک ٹھاک کپڑے پہن سکے۔عامر کے ذہن میں خیالات بڑی تیزی سے گردش کرنے لگے۔ کیا ہم اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے؟ کیا ہم صرف فطرہ دے کر ہی کام چلا لیں گے؟ نہیں، ہمیں ان لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔ایسے لوگوں کی ہم پر بھی تو کوئی ذمہ داری ہے۔اسے کلاس میں بتایا ہوا اپنی میڈم کا ایک ایک فقرہ یاد آ رہا تھا۔

" کیا ہوا عامر بیٹے؟ تم یہاں اکیلے کیوں بیٹھے ہو؟'' امی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا'' چلو، سویّا ں کھا لو، میں نے نکال کر رکھی ہیں"

" نہیں امی، ابھی میرا موڈ نہیں ہے" عامر نے آہستہ سے کہا۔

" کیوں؟ کیا ہوا تمہارے موڈ کو ؟" عامر کی بات سن کر امی کے پیشانی پر تشویش کی لکیریں ابھر آئیں" کہیں بخاروغیرہ تو نہیں ہے؟"

" نہیں امی، ایسی کوئی بات نہیں" عامر نے مسکرانے کی کوشش کی، مگر وہ لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

" اچھا جاؤ کرتا پاجامہ اتار کر پینٹ شرٹ پہن لو اور دوستوں کے ساتھ گھوم پھر آؤ۔تمہارا دل بہل جائے گا" یہ کہتی ہوئی امی اس کے کمرے سے باہر چلی گئیں۔

عامر بے دلی سے اٹھا اور کپڑے بدلنے لگا۔اس کی آنکھوں کے آگے اب بھی اسی لڑکے کی تصویر تیر رہی تھی۔ تبھی اچانک اسے کہیں دور سے اسی لڑکے کی آواز سنائی دی۔ اس نے الماری سے پانچ روپے کا نوٹ اٹھایا اور سیدھا باہر کی طرف بھاگا۔

باہر گلی میں وہ لڑکا پڑوس والے گھر کے سامنے کھڑا اپنی بات دہرا رہا تھا" بابو جی! کچھ پیسے دے دو، ہم بھی ہنسی خوشی عید منا لیں"

عامرنے آواز دے کر اسے اپنے پاس بلا لیا۔ وہ اسے پانچ روپے کا نوٹ دیتے ہوئے بولا،" اب تو خوش ہو؟"
" ہاں بابو جی، خدا آپ کو سلامت رکھے۔ آپ کی جھولی ہمیشہ روپے پیسوں سے بھری رہے" کہتے کہتے اس لڑکے کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

اس نے عامر کو سلام کیا اور پھر اچھلتا ہوا گلی میں ایک طرف بھاگ گیا۔اس لڑکے کو اس طرح سے بھاگتا دیکھ کر عامر کا چہرہ کھل اٹھا۔وہ اس وقت تک اسے دیکھتا رہا، جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔

تبھی عامر کو لگا کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔اس نے مڑ کر دیکھا، سامنے اس کے ابو کھڑے تھے۔ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا۔ اس تھیلے کو دیکھ کر عامر کو بڑا تعجب ہوا۔وہ بولا،" اس میں کیا ہے ابو؟ "

" تمہارے کپڑے اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں" ابو نے مسکرا کر جواب دیا"

" میرے کپڑے؟" عامرچونکا" آپ ان کو لے کر کہاں جا رہے ہیں؟"

آؤ میرے ساتھ، تمہیں خود معلوم ہو جائے گا"کہہ کر وہ ایک طرف چل پڑے"

عامرکی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ بھی چپ چاپ ابو کے ساتھ ہو لیا۔

چار پانچ گلیوں کو عبور کرتے ہوئے وہ لوگ ایک ایسی جگہ پہنچے، جہاں پر بہت سی جھگیاں بنی ہوئی تھیں۔ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابو بولے،" عامر بیٹے، ان میں وہ لوگ رہتے ہیں، جنہیں عید و بقرعید میں بھی ڈھنگ کا کھانا نہیں نصیب ہوتا۔ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی مدد کریں۔ یہ سامان انہی لوگوں کے لئے ہے۔ لواسے اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرو"

عامرنے فخر سے ابو کی طرف دیکھا۔اس کے چہرے کی چمک پھر سے لوٹ آئی تھی۔وہ عید کے چاند کی طرح جگمگانے لگا۔ اس نے بیگ ہاتھ میں پکڑا اور آگے بڑھ گیا۔ امید کی روشنی سے جگمگاتی سینکڑوں نگاہوں کا وہ اگلا ہدف تھا۔