آزاد نظم
آزاد نظم
ایک خواب
محمد علم اللہ اصلاحی
خوبصورت اور حسیں
سرخ سفید
جوڑے میں
ایک ماہ پارہ
سامنے کھڑی تھی
لمبے گھنے بادل کی طرح
کالے بال
دودھیا کٹوری میں
نیلی تیرتی آنکھیں
سرخ و سپید رخسار
چاہتیں لب پہ
مچلتی ہوئی
مجھ سے کچھ کہنے کے لئے
بے قرار تھی
نہ جانے یکایک کہاں سے
مری آنکھوں میں بھی کچھ
حوصلہ آیا
اس کے دیدار کی امنگ جاگی
بڑی ہمت سے میں نے بھی
نظر سے نظر ملا دی
میں اسے دیکھتا رہا،
وہ مجھے تکتی رہی”
سلسلہ یہ تادیر قائم رہا
تھی دونوں ہی آنکھوں میں اک
کشاکش
نظر ہٹے تو پہلے کس کی ہٹے
کوئی کھوئی مراد مل گئی
مجھکو
یہ سوچ کر میں یک بیک
کھو گیا اس کی آنکھوں میں
میری پلکوں کا یہ دریچہ
کھلا کا کھلا رہ گیا
کچھ جانا کچھ پہچانا سا چہرہ
شاید یہ وہی چہرہ ہے
تھا جس کی تلاش میں بہت دنوں
سے میں
کچھ وہ بھی ڈھونڈ رہی تھی
مجھ میں
میں سر تا پا اس کا جائزہ
لینے لگا
بے چینیوں کا جام چھلکنے لگا
دل کا ایک ایک انگ مچلنے لگا
اس سے پہلے کہ میں کہتا اس
سے کچھ
’’وہ خود آگے بڑھی
میری طرف
اپنی تمام تر اداؤں
اور رعنائیوں کے ساتھ
مسکرا تی ہوئی
قریب آکے مجھے سلام کیا
مست آنکھوں سے اس نے اپنی
اک گھونٹ پلا دیا مجھکو
ہر شئے سے بے خبر کر دیا مجھکو
یہ سوچ کر میں
لبوں کو جنبش دوں تو کیسے
دوں
اسکے سلام کا جواب دوں تو
کیسے دوں
میں اس کے قدموں کو دیکھتا
رہا
وہ دھیرے دھیرے بڑھتی رہی
میری جانب
اور قریب آکر میرے آکر ہاتھ
پر ہاتھ رکھ دیا اس نے
مرے جسم کا رواں رواں
اسکالمس محسوس کرنے لگا
ان گداز ہاتھوں کی حرارت نے
دل میں اک ہلچل سی مچا دی
میرے
مگر تھا میں کتنا بد نصیب
ایک ہلکی سی آہٹ سے
کھل گئی آنکھ میری
محمد علم اللہ اصلاحی
خوبصورت اور حسیں
سرخ سفید
سرخ سفید
جوڑے میں
ایک ماہ پارہ
سامنے کھڑی تھی
لمبے گھنے بادل کی طرح
کالے بال
دودھیا کٹوری میں
نیلی تیرتی آنکھیں
سرخ و سپید رخسار
چاہتیں لب پہ
مچلتی ہوئی
مجھ سے کچھ کہنے کے لئے
بے قرار تھی
نہ جانے یکایک کہاں سے
مری آنکھوں میں بھی کچھ حوصلہ آیا
اس کے دیدار کی امنگ جاگی
بڑی ہمت سے میں نے بھی
نظر سے نظر ملا دی
میں اسے دیکھتا رہا،
وہ مجھے تکتی رہی”
سلسلہ یہ تادیر قائم رہا
تھی دونوں ہی آنکھوں میں اک کشاکش
نظر ہٹے تو پہلے کس کی ہٹے
کوئی کھوئی مراد مل گئی مجھکو
یہ سوچ کر میں یک بیک
کھو گیا اس کی آنکھوں میں
میری پلکوں کا یہ دریچہ
کھلا کا کھلا رہ گیا
کچھ جانا کچھ پہچانا سا چہرہ
شاید یہ وہی چہرہ ہے
تھا جس کی تلاش میں بہت دنوں سے میں
کچھ وہ بھی ڈھونڈ رہی تھی مجھ میں
میں سر تا پا اس کا جائزہ لینے لگا
بے چینیوں کا جام چھلکنے لگا
دل کا ایک ایک انگ مچلنے لگا
اس سے پہلے کہ میں کہتا اس سے کچھ
’’وہ خود آگے بڑھی میری طرف
اپنی تمام تر اداؤں
اور رعنائیوں کے ساتھ
مسکرا تی ہوئی
قریب آکے مجھے سلام کیا
مست آنکھوں سے اس نے اپنی
اک گھونٹ پلا دیا مجھکو
ہر شئے سے بے خبر کر دیا مجھکو
یہ سوچ کر میں
لبوں کو جنبش دوں تو کیسے دوں
اسکے سلام کا جواب دوں تو کیسے دوں
میں اس کے قدموں کو دیکھتا رہا
وہ دھیرے دھیرے بڑھتی رہی میری جانب
اور قریب آکر میرے آکر ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا اس نے
مرے جسم کا رواں رواں
اسکالمس محسوس کرنے لگا
ان گداز ہاتھوں کی حرارت نے
دل میں اک ہلچل سی مچا دی میرے
مگر تھا میں کتنا بد نصیب
ایک ہلکی سی آہٹ سے
کھل گئی آنکھ میری
ایک ماہ پارہ
سامنے کھڑی تھی
لمبے گھنے بادل کی طرح
کالے بال
دودھیا کٹوری میں
نیلی تیرتی آنکھیں
سرخ و سپید رخسار
چاہتیں لب پہ
مچلتی ہوئی
مجھ سے کچھ کہنے کے لئے
بے قرار تھی
نہ جانے یکایک کہاں سے
مری آنکھوں میں بھی کچھ حوصلہ آیا
اس کے دیدار کی امنگ جاگی
بڑی ہمت سے میں نے بھی
نظر سے نظر ملا دی
میں اسے دیکھتا رہا،
وہ مجھے تکتی رہی”
سلسلہ یہ تادیر قائم رہا
تھی دونوں ہی آنکھوں میں اک کشاکش
نظر ہٹے تو پہلے کس کی ہٹے
کوئی کھوئی مراد مل گئی مجھکو
یہ سوچ کر میں یک بیک
کھو گیا اس کی آنکھوں میں
میری پلکوں کا یہ دریچہ
کھلا کا کھلا رہ گیا
کچھ جانا کچھ پہچانا سا چہرہ
شاید یہ وہی چہرہ ہے
تھا جس کی تلاش میں بہت دنوں سے میں
کچھ وہ بھی ڈھونڈ رہی تھی مجھ میں
میں سر تا پا اس کا جائزہ لینے لگا
بے چینیوں کا جام چھلکنے لگا
دل کا ایک ایک انگ مچلنے لگا
اس سے پہلے کہ میں کہتا اس سے کچھ
’’وہ خود آگے بڑھی میری طرف
اپنی تمام تر اداؤں
اور رعنائیوں کے ساتھ
مسکرا تی ہوئی
قریب آکے مجھے سلام کیا
مست آنکھوں سے اس نے اپنی
اک گھونٹ پلا دیا مجھکو
ہر شئے سے بے خبر کر دیا مجھکو
یہ سوچ کر میں
لبوں کو جنبش دوں تو کیسے دوں
اسکے سلام کا جواب دوں تو کیسے دوں
میں اس کے قدموں کو دیکھتا رہا
وہ دھیرے دھیرے بڑھتی رہی میری جانب
اور قریب آکر میرے آکر ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا اس نے
مرے جسم کا رواں رواں
اسکالمس محسوس کرنے لگا
ان گداز ہاتھوں کی حرارت نے
دل میں اک ہلچل سی مچا دی میرے
مگر تھا میں کتنا بد نصیب
ایک ہلکی سی آہٹ سے
کھل گئی آنکھ میری
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں