بدھ، 19 فروری، 2014

سزایافتہ قیدی چیتالی فاطمہ کاقصہ ٔ درد


محمد علم اللہ اصلاحی 

 آئیے آپ کی ملاقات کرائیںبرسا منڈا جیل میں قیدایک انتہائی قابل ،با صلاحیت اور اعلی تعلیم یافتہ خاتون قیدی چیتالی فاطمہ سے ،ان کی عمر تقریبا 33سال ہے۔ پہلے یہ ہندو تھیں بعد میںانہوں نے اسلام قبول کیا۔انھیں ہندی ،انگریزی ،فرنچ اور کئی دیگرزبانیں خوب آتی ہیں۔ کلاسیکل موسیقی میں بھی انہوںنے تربیت لی ہوئی ہے۔تعلیم کیلئے انھوں نے اپنے آبائی وطن جمشید پور کے علاوہ رانچی، حیدر آباد اور دہلی کا سفر کیا۔ فیشن ڈیزائننگ میں ڈپلومہ کرنے والی یہ خاتون اس وقت عمر قید کی سزا جھیل رہی ہے۔ آپ کو اس جیل میں آئے ہوئے کتنے دن ہو گئے؟یہ سوال سن کروہ تھوڑی دیر کیلئے سوچوں میں غرق ہو گئیں۔ انگلیوں پرشمار کے بعد بتایا مجھے تقریبا ساڑھے 13 سال ہو چکے ہیں۔یہاں سے پہلے میں کچھ وقت شاید دو سال ساکچی جیل میں رہی۔ مجھے پھانسی کی سزا ہوئی تھی، لیکن بعد میںیہ سزا عمر قید میں بدل گئی۔ معافی یا بخشش کے بعدیہ رواج ہے کہ جس کو سزائے عمرقید دی جاتی ہے، اسے سینٹرل جیل میں ہی رکھا جاتا ہے، (ہونٹوں میں ہلکی سی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے) اور تب سے ابھی تک میں یہیں ہوں۔ مجھے نہیں معلوم آگے کیا ہوگا۔ آپ کس جرم میں یہاں لائی گئیں ؟یہ سوال سنتے ہی انہوںنے اپنی نظریں نیچی کر لیں اور کہنا شروع کیا ’ مجھ پر دفعہ 302 کا چارج لگا تھا۔میرے اوپر یہ الزام تھا کہ میں نے اپنے ماں، باپ، دادا اور بھائی کو مار کر ان کی باڈی کوٹکڑے ٹکڑے کرٹنکی میں ڈال دیا تھا، لیکن سہی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا! اگر میرے شوہر نے کیا تھا تو اس نے مجھے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا،وہ لمحہ سوچ کر میں اب بھی ہل جاتی ہوں۔ آپ خود بتا? حادثہ کے چار ماہ بعد جب باڈی ملی وہ بالکل تازہ تھی پھر بھی پولیس نے مجھ پر یہ چارج لگایا کہ یہ کارنامہ میں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کرانجام دیا تاکہ ہم دونوں ایک ساتھ رہ سکیں۔ پولیس اوراستغاثہ اس بات کو ثابت نہیں کر سکے۔ لیکن پھر بھی شاید کرائم کینیچر کی وجہ سے مجھے اور میرے شوہر کو پھنسی کی سزا دی گئی تھی۔ افرسٹ کم ٹو لاسٹ کم لیکن ہمارے ساتھ تو الٹا ہوا نا کسی بھی وٹنیس نے یہ نہیں کہا میں نے دیکھا ہے چیتالی کو اور اس کے شوہر کو اپنے گھر والوں کو زہر دیتے ہوئے اور پھر باڈی کومثلہ کرتے ہوئے، جس وقت مجھے سزا دی گئی میں حاملہ تھی، لیکن پھر بھی رحم نہیں دکھایاگیا۔ جج نے اسے rarest of the rare case (شاذ و نادر پیش آنے والا واقعہ) کہا تھا (آنسو?ں کو چھپانے کی ناکام کوشش کے ساتھ ) اس نے کہا’اس دن قانون پر سے میرا بھروسہ اٹھ گیا تھا‘۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد چیتالی کہتی ہیں ’جب جب سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ میں نے ان کے خواب توڑے،میرا بھی ایک بیٹا ہے۔ ایک سال میں ایک بار ہی ملنے دیا جاتا ہے اس سے۔یہاں ہونے کی وجہ سے میں ایک ماں کی ممتا اور پیار بھی نہ دے سکی ، اچھی تعلیم بھی نہیں اس کی اچھی پرورش بھی نہیں کر سکی‘۔
اپنے پرانے دنوں کے بارے میں چیتالی کہتی ہیں من ہی نہیں لگتا تھا، بھوک ختم، نیند ختم، ایک ڈر رہتا تھازندگی کے بارے میں سوچ کرجب بھی یہ سوچتی تھی کہ جب تک وقت ختم نہ ہو جائے اس وقت تک یہیں رہنا ہے، تو بہت پست ہمت ہو جاتی تھی، بالکل پاگل ہو جاتی تھی ،ہمیشہ بس رونے کا ہی من ہوتا تھا۔(آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں)سننا بہت آسان ہوتا ہے پر جب گزرتی ہے اپنے پر تب لگتا ہے، شام کو جب 6 بجے سیل کا دروازہ بند ہوتا تھا تب لگتا تھا کہ جیل کیا ہوتی ہے، اوپر سے ایسی جگہ پرایک انجان لوگوں کے درمیان جنہیں آپ جانتے بھی نہیں عجیب سا محسوس ہوتا تھا۔جتنا روتی تھی اتنا ہی اس کی شدت میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ صحیح معنوں میں یہ جگہ(جیل) آپ کو توڑدیتی ہے (روتے ہوئے کہتی ہیںمیں اس لمحہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی )میری وجہ سے میرے بیٹے کو بہت پربلم ہوئی ایڈجیسٹ کرنے میں۔حکومت کاقانون ہے کہ بچے کی عمر 6 سال ہو جائے تو اسے جیل میں نہیں رکھ سکتے لیکن 6 سال تک تو وہ یہیں رہا تھا۔ پھر جب وہ گھر گیا دادی کے ساتھ تو اندھیرا ہونے کے ساتھ یہ بولنے لگا کی دروازہ بند کرو اب،ممی جہاں رہتی ہے وہاں ایساہی ہو جاتا ہے! تب دادی اسے سمجھاتی کہ نہیں بیٹے کچھ نہیں ہوگا، ممی دوسری جگہ رہتی ہے لیکن چھوٹا سا ہے وہ، خود اٹھ کر دروازہ بند کر دیتا تھا اور زمین پر سو جاتا تھا، بیڈ پر اسے نیند نہیں آتی تھی۔پھر ایڈجسٹ ہونا پڑا دھیرے دھیرے،میرے ساتھ جو ہوا اس کی بنیاد پر میں یہاں کہہ سکتی ہوں کہ اگر یہاں زندہ رہنا ہے تو آپ کو دیواروں سے دوستی کرنی پڑے گی ،دشمنوں سے بھی آپ کو دستوں کی طرح پیش آنا ہوگا۔بھولنا ہوگا کے آپ کبھی یہاں سے جائیں،آپ کو یہاں ایڈجسٹ کرنا ہی پڑتا ہے ورنہ جینا بہت مشکل ہے۔یہاں تو بس آپ ہمیشہ سیل کے دیوار کو ہی دیکھتے رہتے ہیں، ایسے ہی، چپ چاپ، بغیر کچھ بولے، بس گھنٹوں دیوار کو ہی دیکھتے رہتے ہیں، دل میں بس یہی بات آتی ہے کہ پتہ نہیں میرے بارے میں لوگ کیا سوچ رہے ہوں گے، میرے دوست کیا سوچ رہے ہوں گے یہاں تک کہ آپ اس سوچ کی تہ کے نیچے دب گئے ہیں ،نئی جگہ ہے، کوئی جان پہچان نہیں ہوتی اور ڈر بھی لگتا ہے بہت، اور کسی سے کوئی بات بھی نہیں کر سکتے، بھوک تو لگتی ہی نہیںہے، پیاس لگتی بھی ہے تو آپ میں اٹھ کر پانی پینے کی ہمت نہیں ہوتی، رات بھر جاگ کر صرف رونا، صرف رونا، یہی ہوتا ہے بس اور سب کے ساتھ ہوتا ہے جو پہلی بار آتا ہے۔ یہاںسیل کے بند ہونے کے بعد وہی ایک عجیب احساس۔ یہ کہتے ہوئے چیتالی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔

اپنے ہاتھوں کے نشانات دکھاتے ہوئے جس میں چوڑیوں اور دانتوں کے نشان صاف نظر آ تے ہیں چیتالی کہتی ہیں۔دیکھو کتنا نشان ہے،جب میں یہاں آئی تھی تو کوشش کرتی تھی کہ اپنے آپ کو مار لوں، بہت بار کوشش کیا لیکن…( پھر کچھ سوچ کر) اگر بیٹا نہیں ہوتا تو کچھ بھی کرجاتی، مر جاتی، لیکن اس کیلئے تو زندہ رہنا پڑے گا۔جذباتی انداز میں چیتالی بتاتی ہیں ’شروع میں بھاگنے کی بات آتی ہے دل میں لیکن جب آپ کوچالیس چالیس فٹ کی دیواریں اور چوکسی یاد آتی ہے تو آپ جان جاتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں،پھر آپ خود کو وہاں کے حساب سے ڈھالنا شروع کر دیتے ہیں تب آپ میںتبدیلی شروع ہوتی ہے، مجھ سے لوگ پوچھتے تھے چیتالی تم نے ایسا کیوں کیا، میں کوئی جواب نہیں دیتی تھی لیکن پھر بھی ہر کوئی یہی پوچھتا رہتا تھا، بڑا غصہ آتا تھا مجھے اور مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ غصہ بہت جلدآجاتاتھا۔ اندر سیمتشددہوجاتی تھی، بلکہ آپے سے باہر، لیکن وہ غصہ کسی پر اتارتی نہیں تھی،ہمیشہ خود پر ہی اتارتی تھی (پھر آنکھوں سے آنسو …) خود کوشش کرتی تھی کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھوں کئی لوگ اس کو محسوس بھی کرتے تھے ،جی میں آتا تھا کہ کہیں جا کرگلے میں آواز رندھ جاتی ہے۔
 اس کے بعد جب ہم نے چیتالی سے پوچھا کافی لمبے عرصہ سے آپ جیل میںہیں تو باہر کی زندگی کے بارے میں کیا سوچتی ہیں ؟ مسکراتے ہوئے ’کیا سوچوںگی؟جو ہونا تھا، جس کی وجہ سے میں یہاں پر ہوں اس کے بارے میں سوچ کر کیا ہو گا،وہ بھی یہاں ہے۔ اسی جیل میں،باہر بیٹا ہے اپنے دادی کے ساتھ،بس اسی کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ کیا ہوگا کیسے ہوگا، اس کی دادی بھی تو بوڑھی ہے اور وہ بھی چھوٹا ہے،بس یہی سب سوچتی رہتی ہوں اور کیا۔فیملی اور خاندان کی یاد کی بابت کہتی ہیں فیملی کے نام پر صرف بیٹا ہی تو بچا ہے، اسے بھی سال میں صرف ایک بار ملنے دیا جاتا ہے، یہاں سے جانے کے بعد وہ بہت اداس ہو گیا تھا، ایک ایک سال تک انتظار کرتا تھا کہ جب جاؤںگا ممی کے پاس تو یہ سب بتاؤںگا، آنے کے بعد کہتا بھی تھا کہ میں نے آپ کو بولا ہے، آپ پلیزاسے پاپا کو مت بتانا۔اب جب بھی سوچتی ہوں تو بس اسی کے بارے میں۔
میڈیا والوں سے دلبرداشتہ چیتالی کہتی ہیں ’جس طرح سے میرے کیس کو میڈیا نے سب سے زیادہ بدنام کیسوں میں سے ایک کا درجہ دیا، بغیر کچھ سوچے سمجھے مرچ مسالہ لگا کر کام لیا سچ کہتی ہوں تب تو برقی میڈیا اتنی تھی بھی نہیںاس کے باوجود میرے کیس کوایک طرفہ طریقے سے ظاہر کیا گیا تھااور اس میں میڈیا نے پورا پورا کردار نبھایا۔ اس کی وجہ سے تو لوگوں نے مجھے پہلے ہی مجرم سمجھ لیا تھا۔ میں آپ کو ایک واقعہ بتاتی ہوں(ذرا مسکراتے ہوئے)مجھے ایک بار جب کورٹ میں لے جایاگیا تھا(کچھ سوچ کر) یہ بالکل شروع کی بات ہے ،وہاں میڈیا کے ساتھ ساتھ اور بھی کافی تعداد میں لوگ جمع تھے،تو میں وہاں ایک کونے میں کھڑی تھی اور تھوڑی دور پر ایک لڑکی کھڑی تھی تو میں نے اس سے پوچھا کی اتنی بھیڑ کیوں ہے یہاں؟ اس نے کہا کہ ارے آپ کو پتہ نہیں آج چیتالی آنے والی ہے یہاں۔ وہی جس نے اپنے گھر والوں کو مارا ہے۔تو میں نے اس سے پوچھا آپ کو کیوں لگتا ہے کہ چیتالی نے انہیں مارا ہے؟ اس نے کہا ارے پوری میڈیا کہہ رہی ہے کہ اس نے ہی مارا ہے، وہ جھوٹ کیوں بولیں گے؟ تو میں نے اس کو سمجھایا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا تب تک تو وہ معصوم ہے، قریب دس منٹ اسے سمجھاتی رہی میں۔ اتنے میں ایک حولدار آیا میرے پاس اور بولاچیتالی! چلو اب اندر۔ اس کے بعد میں اس لڑکی کومیں اور وہ مجھے تھوڑی دیر تک دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر وہ اچانک سے رونے لگی اور بولی نہیں نہیں! آپ چیتالی نہیں ہو سکتیں! آپ تو اتنے اچھے سے بات کر رہی ہیں، آپ کسی کا قتل نہیں کر سکتی ہو۔
یہ پوچھے جانے پر کہ جیل آنے سے قبل آپ جیل کے بارے میں کچھ جانتی تھیں ؟کہا ’بس اتنا پتہ تھا کی جیل ایک جگہ ہے جہاں کریمنل کو رکھا جاتا ہے! اور ویسے کچھ نہیں پتہ تھا۔جیل میں گزارے ہوئے ایام کی بابت پوچھے جانے پر’ اتنا یاد نہیں۔کیوں کہ یہاں کے پہلے ساکچی جیل میں تھی! اس کے بارے میںتو یاد ہے کچھ کچھ اس رات میں سو نہیں سکی تھی بالکل بھی ،ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں ،بہت روئی تھی اس وقت۔ بہت ہی مایوس ہو گئی تھی۔کسی کرمنل کیلئے یہ نیا نہیں ہوتا ہوگا لیکن ایک بے گناہ کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے۔! ہمیشہ بس یہی سوچتی تھی کہ اب ہمیشہ یہیں رہنا ہوگا۔ تھوڑی بھی نیند نہیں آتی تھی۔ آتی بھی تھی تو تھوڑی دیر بعد ٹوٹ جاتی تھی۔ایک ڈر لگا رہتا تھا کہ اب کیا ہوگا! میرے بیٹے کا کیا ہوگا اور لوگ کیا سوچتے ہوں گے۔ ہمارے بارے میں آپ مانوگے نہیں جو سب کہتے ہیں نہ کبھی کبھی اندھیرا بہت ڈراونا ہوتا ہے۔ یہ اس وقت محسوس ہوتا تھامجھے یہاں۔ پوری پوری رات بغیر سوئے ایسے ہی گزر جاتی تھی (چشمہ اتار کر) جب سر پر کلنک لگا ہو تو نیند نہیں آتی ہے۔
باہر کی دنیا کے بارے میں کیسے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کیا کچھ ہو رہا ہے (مسکراتے ہوئے )چیتالی نے ہمیں بتایااخبار آتے ہیں ہندی اور انگلش دونوں آتے ہیں۔ انگلش آج کل بند ہے، ٹی وی ہے پر صرف دوردرشن آتا ہے(ہنس کر) سرکاری جگہ ہے تو چینل بھی سرکاری آتا ہے،کوئی میگزین اگر چاہیے تو لکھوا کر جیلرکو دینا پڑتاہے پھر اجازت ملنے کے بعد وہ آ جاتی ہے تھوڑے دن بعد۔چیتالی سے جب یہ پوچھا کہ فلموں میں جیل کی بابت جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس میں کتنی سچائی ہے تو ان کا کہنا تھا فلموں میں جو دکھایا جاتا ہے کہ چکی وغیرہ پیسنا ہوتا ہے وہ سب بالکل غلط ہے، ویسا کچھ بھی نہیں ہوتا،میں جو تمہارے پاس آئی ہوں توتین گیٹ پار کر کے آئی ہوں، وہ بھی ہماری جو گارڈ ہوتی ہے خاتون گارڈ ان کے علاوہ دو میل گارڈ بھی رہتے ہے جب ہمیں آنا ہوتا ہے، آنے کے وقت مکمل راستہ خالی کرا دیتے ہیں وہ لوگ… کسی کو ڈراتے، ما رتے بھی نہیںہیں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کھانا ملتا ہے تو اسی وقت کھانا ہوتا ہے پر ایسا نہیں ہے، کھانا لے کر جس کو جب دل ہو تب کھا سکتا ہے۔
 فلمیں کرائم کو بڑھا وا دیتی ہیں،اس سلسلہ میں آپ کا کیا خیال ہے؟اس سوال پرچیتالی کہتی ہیں بالکل ہمارے وقت میں تو ہمیں پتہ نہیں ہوتا تھا کہ بندوق کیا ہوتی ہے لیکن اب کے بچے صرف جانتے ہی نہیں، چلاتے بھی ہیں۔جیلوں میں لڑائی جھگڑے کی بابت چیتالی بتاتی ہیں خاتون وارڈ میں تو نہیں ہوتا ہے میل وارڈ میں بھی اتنا نہیں ہوتا ہے ہاں کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پربحث و تکرار تو ہو ہی جاتی ہے ، یہاں کوئی کسی کو برداشت نہیں کرتا ہے۔
 اگلا سوال تھا کہ جیلوں میں عموما کرمنل اور ایسے اعلیٰ ریکارڈ رکھنے والوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ایسی باتیں کئی مرتبہ اخباروں کے ذریعہ سننے کو ملتی ہیں ،اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی تو چیتالی کا کہنا تھا ہاں یہ سچ ہے ، جب میں یہاں آئی تھی تو سب کو پتہ تھا میرے بارے میں، کوئی مجھ سے بات بھی نہیں کرتا تھا، سب ڈرتے تھے کہ ارے یہ تو اپنے ماں باپ کاقتل کرکے آئی ہے، اس سے کون الجھے گا، تو سب مجھ سے ڈرتے تھے۔ ان کیلئے جو پہلے سے کرمنل ہیں لیکن جیل کے لوگوں کو ان کے بارے میں معلوم نہیں ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، لیکن میرے بارے میں تو سب نے سنا تھااسی لئے اسی طرح سے بر تا? بھی کیا۔میڈیا میں کس طرح کی چیزوں کو اولیت دی جانی چاہئے اس بابت چیتالی کہتی ہیں یہاں یا کہیں بھی جو معصوم ہیں، ان کے بارے میں اور بتانا چاہئے۔بہت سے ایسے لوگ بھی یہاں ہے جو کچھ بھی نہیں کیا لیکن پولس نے طاقت کے زور پرانہیں مجرم بنا دیا کوئی مجوزہ کرائم کروا دیا، ان کے بارے میں اور بتانا چاہئے۔
باتوں باتوں میں ہم نے پوچھا کہ اگر آپ کو فلم بنانے کا کبھی موقع ملا تو کن چیزوں کو دکھانا پسند کریں گی چیتالی نے ہنس کرجواب دیا مطلب! اگر مجھے فلم بنانی ہو تو! میںیہ خیالی یا اس بھرم کو توڑنا چاہوں گی کہ جو ایک بار یہاں آ گیا وہ کرمنل ہی ہے یا یہاں ہمیں ٹارچر کیا جاتا ہے ،ہم بھی یہاں باہرکے لوگوں کی طرح نارمل زندگی جیتے ہیںسب سے بڑی سزا تو یہی ہوتی ہے کہ ہمیں فیملی سے، معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے لیکن تمام تو یہاں کرمنل نہیں ہوتے۔حقیقت کیا ہے؟ سوچ و فکر توتبدیل ہو سوسائٹی کا کچھ۔
جیل کے بارے میں باہر کے لوگوں کو کیوں لاعلم رکھا جاتا ہے اس بارے میں چیتالی کہتی ہیں ’پانی میں رہ کر ہم مگر سے تو جھگڑا نہیں کر سکتے نادیکھو(تھوڑی دیر توقف کے بعد)، کچھ تو سیکوریٹی کامسئلہ ہو سکتا ہے اور کچھ یہ کہ نہ حکومت سچ بتانا چاہتی ہے اور نہ ہی لوگ سچ سننا چاہتے ہیں (مسکراتے ہوئے) سوچتے ہوں گے کہ یہ سب توسرد خون کے قاتل ہیں ، ان کے بارے میں کیا کریں گے جان کر۔میرے خیال میں سیکورٹی کی وجہ سے پچاس فیصداور دوسری وجوہات سے پچاس فیصد مگر آپ اس کو 75 اور 25 فرض کر لو۔ جیل میں آنے کے بعد اصلاح کے کتنے امکانات باقی رہ جاتے ہیں،اس سوال کے جواب میں چیتالی کہتی ہیں ڈاکٹر کلام نے کہا ہے اپنے حق کے لئے لڑو لیکن جب آپ انہی لوگوں کوسزاکرتے ہو تو کوئی مطلب نہیں بنتا، مگر بہت کچھ سکھا دیتاہے! یہاں سب کوموقع ملتا ہے ، اب یہ اس پرمنحصر کرتا ہے کہ وہ بہتر بننا چاہتا ہے یا نہیں۔

2 تبصرہ جات:

گمنام نے لکھا ہے کہ

اسلام کیسے قبول کیا وہ تو بتایا ہی نہیں،،،،اور ایسے بے قصور لوگوں کے لئے کیا کِیا جا سکتا ہےِِِِ؟

Mohammad نے لکھا ہے کہ

یہ سوال کئی لوگوں نے کیا ۔۔۔ لیکن میری یہ بد نصیبی رہی کہ اس وقت یہ سوال نہیں کر سکا تھا۔۔۔ذہن میں آیا ہی نہیں ۔۔۔ جہاں تک قصوروار ہونے کی بات ہے یہ فیصلہ تو عدالتیں کرتی ہیں ۔۔۔ چونکہ ہر قیدی یہی کہتا ہے کہ مجھے غلط پھنسایا گیا ۔۔اب ہمارے پاس نہ تو اتنے وسائل ہیں کہ جانچ پڑتال کریں اور نہ ہی عدالت کے رویہ پر انگلی اٹھا سکتے ہیں کہ عدالتیں شواہد کی بنیاد پر ہی فیصلہ دیتی ہیں ۔۔