جمعہ، 4 جنوری، 2013

بچپن کی یاد



بچپن کی یاد 
محمد علم اللہ اصلاحی
 اس وقت رات کے تقریبا بارہ بج رہے ہیں ،میں عید کی چھٹیوں کے بعد واپس دہلی لوٹ رہا ہوں ،لائٹیں گل کر دی گئی ہیں ،بوگی کے سارے مسافر نیند کی آغوش میں جا چکے ہیں ، کہیں کہیں سے ایک دو بوڑھے مسافروں کی کھانسنے کی آواز ضرور آرہی ہے ،اس سے مجھے کوئی خلل نہیں ہو رہا ہے ،لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے نیند بالکل بھی نہیں آ رہی ہے ۔ سہی ہی کہا ہے میرزا ادیب نے جس جگہ پر انسان کا بچپن گزرا ہو وہ جگہ ہمیشہ دل کے پاس رہتی ہے۔ اور اکثر خواب بھی انسان اسی ماحول میں دیکھتا ہے۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ جو تصور اشیاءکے بارے میں قائم ہوتے ہیں، وہ بھی اسی جگہ کے ساتھ مختص ہو جاتے ہیں۔ کوئی کہانی یا ناول پڑھتے ہوئے واقعات اور مقامات کے تصور کے ساتھ وہی جگہیں ابھرتی ہیں کہ جہاں ہم نے اپنے سنہرے دن گزارے تھے۔میں بھی اکثر کبھی خوابوں میں اور کبھی یونہی تنہائی میں اپنے ان لمحوں کو دیکھتا رہتا ہوں جہاں میں نے آنکھیں کھولی اور اپنی زندگی کے ایام گذارے۔آج میرزا ادیب کی مٹی کا دیاپڑھنے کے بعد اس میں اور بھی پختگی آ گئی ہے ۔حالانکہ ابھی میں نے اس کتاب کے کچھ ہی ابواب پڑھے ہیںلیکن میرزا ادیب کی اس دلچسپ تحریر کو پڑھ کر نا جانے میرا ذہن کہاں کہاںبھٹک رہا ہے ۔ماضی کی یادوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔آنکھوں سے آنسو جاری ہے اور بچپن کی کھوئی ہوئی یادیں ایک ایک کر کے چلی آ رہی ہیں۔
بچپن کی موہوم سی یاد
کومل سی معصوم سی یاد
بے مقصد سے آنسو ہیں
بے جا ، بے مفہوم سی یاد
شام کے ساتھ ہی آتی ہے
تنہا اور مغموم سی یاد
کیا کیا یاد دلاتی ہے
کوئی نا معلوم سی یاد
پھر سے دل بے تاب ہوا
جاگ اٹھی مرحوم سی یاد
شعروں میں ڈھل جاتی ہے
آتی ہے منظوم سی یاد
یوں تو ازل سے باقی ہے
لگتی ہے معدوم سی یاد
 میں انھیں یادوںکوآپ کے حوالہ کرنا چاہ رہا ہوں ،اس لئے نہیں کہ یہ تمام باتیں تجربات کی بھٹی میں تپی ہوئی یا آپ کے لئے کار آمد ہیں ۔میںکوئی ادیب بھی نہیں ہوں کہ اس میں آپ کو ادب کی چاشنی اور زبان کا چٹخارہ ملے گا تو پھر کیوں شایداوراق کالے کر نے کے لئے یا پھر آپ کا وقت ضائع کرنے کے لئے ۔مجھے خود بھی اس کا جواب نہیں معلوم اس لئے اب اس بابت مجھ سے دریافت نا کیجئے گا ۔شاید کہانی پڑھنے کے بعد آپ کو کچھ مل جائے۔

  میری پیدائش متحدہ بہار شہر رانچی کے قصبہ اٹکی میں جو موجودہ جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے تقریبا 22کیلو میٹر دور ہندو مسلم آبادی پر مشتمل ایک سر سبز و شاداب اور پر امن قصبہ ہے میں 15فروری 1989کوہوئی۔ یہاں پر پر امن کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے اس بات سے قطع نظر کہ ادھر دو چار سالوں میں یہاں بھی فرقہ پرستی کی زہر گھولنے کی کوشش کی گئی ہے اور کئی مرتبہ حالات بگڑتے بگڑتے بچے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجودیہ علاقہ ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر آج بھی جانا جاتا ہے۔ جہاںمسلمان ہندووں کے خوشی و غمی کے موقع پر لوگوں کے سکھ اوردکھ میں شریک ہوتے ہیں، وہیں ہندو بھی عید و بقرعید سمیت ہر قسم کے تہوار میں شریک ہو کر مبارکباد دیتے اور ایک دوسرے کو خوشیاں بانٹتے ہیں۔ میرے زمانے تک یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی ،باڑی یا اسی قسم کے معمولی پیشہ سے وابستہ تھے۔اب کافی تبدیلی آ گئی ہے لوگوں نے اپنے کھیتوں کو بیچ کر عالی شان عمارتیں تعمیر کر لی ہیں ، وہ جگہ جہاں کبھی سر سبزو شاداب کھیت لہرایا کرتے تھے آج عالی شان عمارتیں، بڑے بڑ ے مارکٹ اوردکانوں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

 جہاں پر ہمارا آبائی گھر تھا ٹھیک اس کے پیچھے ہندوں کی آبادی تھی جو پیشہ سے یا تو لوہارتھے یا بت ساز،آس پاس کا علاقہ بہت زیادہ مہذب اور پڑھا لکھا نہ تھا۔ دیہاتی لوگ تھے سادہ سی زندگی اور محدود وسائل شاید اسی وجہ سے معمولی ساتویں آٹھویں بہت زیادہ ہوا تودسویں پاس کو لوگ واجبی سمجھ لیا کرتے تھے۔ البتہ ہمارے گھر میں ہم بہن بھائیوں کو جو ماحول ملا وہ علمی تھا۔ امی بہت زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں لیکن اردو ہندی پر اچھی پکڑ رکھنے والی خاتون والد محترم مولانا محمد اسماعیل رحمانی جامعہ رحمانیہ خانقاہ مونگیر اور دارالعلوم ندوہ العلما کے پر وردہ جبکہ چچا جان مولانا محمد ابراہیم ندوی بڑے عالم دین دار العلوم ند وۃ العلما اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ۔ امی اور ابو کے علاوہ میں نے عربی کی ابتدائی کتابیں تمرین النحو ،تمرین الصرف قصص الانبیا ،القراہ الراشدہ اور اسی قسم کی دوسری کتابیں چچا محترم مولانا ابراہیم ندوی کی نگرانی میں ہی ختم کیں ۔میرے ایک اور چچا عزرائیل کی علمی لیاقت کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور یادہے کہ انھوں نے مجھے کئی دعائیں یاد کرائیں ایک دعا یاد کرنے پر وہ پچاس پیسے یاایک روپئے انعام دیا کرتے تھے۔ میں نے بہت ساری دعائیں یاد کرکے نہ جانے اپنے چچا سے کتنے پیسے وصول کئے ،ایک اور چچا اسرائیل حافظ قران سے بہت زیادہ فیضیاب ہونے کا موقع نہیں ملا اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کا زیادہ تر قیام کاروباری وجوہات کی بنا پر رانچی میں رہا۔

 مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے باضابطہ تعلیم کا آغاز کب کیا لیکن ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ ابا محترم ہم تمام بھائی بہنوں( بڑے بھائی ذکا ءاللہ ،دونوں آپی فرحت ،مسرت ،میں اور میرا چھوٹا بھائی روح اللہ )کو شام ہوتے ہی گھر کے بر آمدے میں چٹائی بچھا کر لالٹین یا پھر لیمپ کی مدھم روشنی میںپڑھانے بیٹھ جایا کرتے ، جہاںہم سب ابو کی نگرانی میںعشاءتک پڑھا ئی کرتے۔ابو چونکہ خاندان کے سب سے بڑے تھے اس لئے زمین جگہوں سے لیکر لڑائی جھگڑا ہر قسم کے حالات کے نپٹارے کی ذمہ داری بھی انھیں کی تھی ۔ابو جس دن اس طرح کے کاموں میں پھنسے ہوتے ہماری جیسے عید ہو جاتی ۔مجھے یاد پڑتا ہے جس بر آمدے میں ہم لوگ پڑھنے بیٹھتے تھے اسکے باہری دروازے پر ایک سوراخ تھاجسے ٹین سے بند کیا گیا تھا۔اس طرح کے حالات میں ابو اگر ہمارے ساتھ نا بیٹھ پاتے یا کہیں گئے بھی ہوتے تو بھی موقع ملتے ہی اس دروازے میں سے جھانک کر ضرور دیکھتے۔پڑھائی کے وقت اگر کوئی شرارت کرتے ہوئے یا پھر گپیں لڑا تے ہوئے مل جاتا تو اس کی خیر نہیں ہوتی ابو اکثر سیلف اسٹڈی پر زور دیتے اور کہا کرتے ڈنڈے کے زور پر پڑھائی کے عادی نہ بنو بلکہ اپنے اندر شوق پیدا کرو کہ یہ چیزیں بعد میں بھی انسان کے کام آتی ہیں ۔گھر پر ہر ایک کو نماز پڑھنے کی سخت تاکید تھی ۔اس سلسلہ میں امی بھی بڑی اسٹرکٹ(سخت) تھیں۔اگر کوئی بلا عذرنماز نہ پڑھتا تو اسے کھانا بھی نہیں ملتا۔مجھے یاد پڑتا ہے ایک مرتبہ میں ایسے ہی نماز کی غرض سے گھر سے نکلا اور تھوڑی دیر بعدبغیر نماز پڑھے ہی گھوم پھر کر گھرآ گیا ۔امی نے پوچھا نماز پڑھ لی میں نے کہا ہاں پڑھ لیا ۔پتہ نہیں امی کو کیسے شک ہو گیا کہ میں نے نماز نہیں پڑھی ہے فورا انھوں نے پاں دکھانے کے لئے کہا ،میں نے پاں جو دکھایاتو گندے تھے ۔امی نے وہیں پہلے تو جھوٹ بولنے پر تھپڑ رسید کئے اور پھرسے گھر پر وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے کہا اور جب میں نے نماز پڑھ لی تبھی کھانا ملا ۔

 ابو پیشہ سے ٹیچر تھے اس لئے ان کے مزاج میں بھی ذرا رعب اور کڑک تھا۔جب کبھی ابوکسی بات پر ہم بہن بھائیوں سے غصہ ہوتے تو امی بالکل نرم پڑ جاتیں ۔مجھے یاد پڑتا ہے میرے زمانے میں گھر پر ایک مولوی صاحب ٹیوشن پڑھانے کے لئے آیا کرتے تھے ۔جسے ابو نے ہی ٹیوٹر کے طور پر رکھا تھا ۔وہ اس لئے کہ اب ابو کا تبادلہ ہوگیا تھا اوروہ گاں کے اسکول بالیکا اچیہ ودھیالیہ کوچھوڑ کر پلاموں ضلع کے پاکی نامی گاں کے کسی اسکول میں پڑھانے کے لئے چلے گئے تھے ۔حالانکہ پاکی میں بھی ابو نے کچھ ہی دن اپنی خدمات انجام دیںکیونکہ جلد ہی یہاں سے بھی ان کا تبادلہ ہو گیااوروہاں سے انھیں لوہردگا ضلع کے ندیا ہندو اچیہ ودھیالیہ میںاپنی ذمہ داریاں نبھانی پڑیں اوراس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر اور مستقل ایک جگہ قیام نہ ہونے کے سبب ہم سارے بھائی بہن ابوکی باضابطہ تعلیم سے محروم رہ گئے۔ ان تمام مجبوریوں کے باوجود ابو نے ہم سب کو ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ وقت برباد نہ ہو کہ کر اور بھی کئی کئی جگہ ٹیوشن کا انتظام کر دیا۔اس صبح و شام کی ٹیوشن نے ہمارا کھیل کود سب کچھ بند کر دیا ۔ انھیں دنوں ہمارے گھر پر ایک بوڑھے مولوی صاحب پڑھانے کے لئے آیا کرتے تھے انھوں نے مجھے کیا پڑھا یایہ یاد نہیں بس ایک ہلکا سا یادوں کا عکس ذہن کے پردہ پر رہ گیا ہے۔مولوی صاحب کی موٹے لینس والی عینک سے جھانکتی آنکھیں ،برسوں کے تجربات سے سفید ہوئی داڑھی اور حالات زمانہ کے سبب ہاتھوں میں پڑی ہوئی جھریاں اور اس میں موٹی سی بانس کی قمچی آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔

 جب میں نے اسکول جانا شروع کیا اس وقت میرے گھر پر ایک ماسٹرثناءاللہ صاحب پڑھانے کے لئے آیا کرتے تھے انتہائی مشفق استاذ ہم سب انھیں بھائی جان کہا کرتے تھے۔ میں نے جس اسکول سے پڑھائی کی وہ پورے علاقہ میں سب سے اچھااسکول مانا جاتا تھا،جماعت اسلامی ہند کے زیر نگرانی درسگاہ اسلامی نامی اس ادارہ میں اساتذہ انتہائی مشفق اور مہربان ہوا کرتے تھے۔ آج کل کی طرح پروفیشنل انداز نہ تھا۔ اساتذہ کے اندر خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ہمارے خاص اساتذہ میں اللہ دادکریم جنھیں ہم لوگ ایڈی کریم کہا کرتے تھے۔مولانا عبد الحفیظ کامی مولانا انعام اللہ رحمت ندوی ،مولانا نسیم انور ندوی ،مولانا سعید ندوی ،مولانا منیر الدین ،ماسٹر عبد الحفیظ ،مولانا فضل الحق ،حافظ شمیم ،مولوی عابداورماسٹرسہیل وغیرہ تھے۔افسوس ان میںسے ایک اب اس جہان میں نہیں رہے ۔ موت کا مزاتو ہر ذی روح کو چکھنا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں یقین نہیں آتا کہ عبد الحفیظ صاحب سچ مچ اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ مشیت الہی کے آگے انسان بے بس ہے یقین تو کرنا ہی پڑے گا ۔معلوم ہوا ہے کہ 27نومبربعد نماز ظہر ان کے آبائی وطن میں سیکڑوں نمناک آنکھوں کے ساتھ انھیں سپرد خاک بھی کر دیا گیا۔ استاذ مرحوم کے ساتھ بہت ساری یادیں وابستہ ہیں ۔موقع ملا تو جلد ہی الگ سے اس پر کچھ لکھوں گا۔

 بات چونکہ درسگاہ اور وہاں کے اساتذہ کی ہو رہی تھی اس لئے پھر وہیں چلتے ہیں ۔درسگاہ میں تمام ہی اساتذہ کی تربیت اور پڑھانے کا اپنا اپنا انداز تھا۔لیکن صحیح معنوں میں ماسٹر ایڈی کریم کا انداز ان سب میںسب سے جدا تھا۔وہ اچھے سے اچھے کائیاں اور ڈھیٹ لڑکوں کو بھی ٹھیک کر دیا کرتے تھے ،میں بھی کئی مرتبہ ان کے عتاب کا شکار ہوا اس لئے ان سے جڑے کئی واقعات میرے ذہن میں اب بھی محفوظ ہیں۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے ماسٹر صاحب کلاس میں پڑھا رہے تھے ،پتہ نہیں کیسے مجھے نیند آ گئی اور میں اونگھنے لگا۔انھوں نے اشارے سے کسی بچے کو مارنے کے لئے کہا۔جیسے لڑکے اسی انتظار میں بیٹھے تھے تڑا تڑ کئی ہاتھ میرے سر پر پڑے اور میں رونے لگا۔ماسٹر صاحب نے ان لڑکوں کو بلایا اور سب کی گوش مالی کرتے ہوئے کہا میں نے اتنا زور سے مارنے کے لئے تھوڑے ہی کہا تھا ،میں تو محض جگانے کوکہا تھا۔ماسٹر صاحب کی تربیت کا انداز بھی عجیب و غریب تھا۔وہ بچوں کی ایمانداری کو آزمانے کے لئے سر راہ کچھ روپئے یا پیسے گرا دیتے اور یہ دیکھتے کہ بچہ اسے اٹھا کر رکھ لیتا ہے یا پھر ہیڈ ماسٹر کے حوالہ کرتا ہے۔ اگر بچے نے لے جاکر ہیڈ ماسٹر یا پھر جس کا سامان ہے اس کے حوالہ کر دیا تب تو ٹھیک اور اگر غلطی سے بھی رکھ لی تو اس کی خیر نہیں ،ایمانداری دکھانے پر ماسٹر صاحب شاباشی دیتے اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے۔ماسٹر اللہ داد کریم ہم بچوں کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے ،شکل وصورت سے تھے بھی بالکل انگریزوں کی طرح گورے چٹے اور لمبے تڑنگے۔سبق یاد نہ کرنے والے بچوں کی وہ ایسی دھنائی کرتے کہ بس۔ایسے موقع پر وہ اپنے مخصوص انداز میں کہا کرتے ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“اور یہ کہتے ہوئے چھڑیوں جسے وہ تنبیہ الغافلین کہا کرتے تھے کی برسات کر دیتے۔ان کی چھڑی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اسے تیل پلاتے ہیں۔ماسٹر صاحب کے نزدیک ساری بیماریو ں کا علاج بس چھڑی سے ہی ممکن تھا۔

 مجھے یاد پڑتا ہے درسگاہ میں ہم سارے بچے کلاسیز شروع ہونے سے قبل ترانہ اور دعا پڑھا کرتے تھے۔دعا کیا تھی علامہ اقبال کی ”یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے “اور ” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری “ اس وقت ہمیں ترانہ ختم ہونے ے بعد آداب سکھائے جاتے مثلا کوئی چیز گری پڑی ملے تو اس کا کیا کرنا ہے ،چھینک آئے تو الحمد للہ کہنا ہے ،سننے والے کو جواب میں یرحمک اللہ ،جمائی کے وقت الٹاہاتھ منھ پر رکھناہے،کھانا بسم اللہ سے شروع کرنا ہے ،کھانے کے بعد دعا پڑھنی ہے ،سڑک میں بائیں طرف سے جانا اور بائیںطرف سے لوٹنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ نہ جانے کیوں آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں توآنکھوں سے سےل اشک رواں ہے، پرانی یادیںایک ایک کرکے تازہ ہو رہی ہیں وہ چھوٹی چھوٹی شرارتیں ،سبق یاد نہ کرنے پر اساتذہ کی چھڑیاں،دوستوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا،چھٹی اور وقفہ میں چورن، چاکلیٹ ،لیمن چوس، پنیرا اور بیر کی خریداری اور دوستوں سے چھپا کر اورانھیں چڑھا کر کھانا،کبھی ان کی چیزیں چھین لینا اور کبھی اپنی چیزیں لٹادینا، ساری چیزیں ایک ایک کر کے یاد آ رہی ہیں۔

 میں آج بھی اپنے اسکول سے متصل اس بوڑھے آم کے پیڑ کو نہیں بھول سکتا ،جب اس کے نیچے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب ہمیں درس دیا کرتے تھے۔اور ہم بچے ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہوا کرتے تھے۔آہ! وہ بھی کیا زمانہ تھا ،بچپن کا لا ابالی پن اور شرارتیں کسی کا سلیٹ توڑ دینا تو کسی کا سر پھوڑ دینا،دوستوں کے ساتھ اسکول سے بھاگ جانااور ثواب کے مبینہ حصول کے لئے جھاڑیوں میں گرگٹ کا مارنا اس پر استاذ کی سختی اور جان کی اہمیت پر تقریر ،آم کی کیریاں اور املی کی ڈلیاں توڑنا ، ،کبڈی، لٹواورپتھر کی گولیاں ،پتنگ،گلی ڈنڈا اور آنکھ مچولی کھیلنا،بھائی بہنوں کا اسکول کے کاموں میں ہماری مدد کر نا ، نماز کے نام پر گھر سے نکلنا اور مسجد میں نہ جانا اس پر ابو کی جھڑکی ،ڈانٹ ،ڈپٹ اور تھپڑ، دوستوں کے ساتھ یا میدان میں کھیلتے ہو ئے ان میں مگن ہو کر ناکھا نا ناپینا اورپھرگھروقت پر ناپہنچنے پر ابو کی پٹائی اس پر امی کی شفقت اور باجی کی حمایت۔اب تو صرف اس کی یادیں ہی باقی
 : رہ گئی ہیں سچ کہا ہے کہنے والے نے
بچپن کے دن بھی کتنے اچھے ہواکرتے تھے
تب دل نہیںکھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشیاںبھی کیسی خوشیاںتھیں
تتلی پکڑ کر ا چھلا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکرو فریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کر چڑیاںپکڑا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہ تھا
جلتے شعلوںکو چھیڑاکرتے تھے
اب تو ایک آنسو بھی رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں تو جی بھر کے رویا کرتے تھے

 گزشتہ دنوں جب گاں جانا ہوا تو انھیں پرانی یادوں کو تازہ کرنے اور اساتذہ سے ملاقات کی غرض سے میں اپنے پرانے علمی گہوارہ میں بھی گیا۔جن اساتذہ کا ابھی میں نے ذکر کیا ان میں سے کئی اب اس دنیا میں نہیں رہے جوحیات ہیں وہ بھی ضعیف ہو چکے ہیں، اللہ ان کو صحت و عافیت سے نوازے اور مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔اپنی ان یادوں کے درمیان اسکول کی موجودہ حالت اوروہاں کے رویہ کو دیکھ کر کافی افسوس ہوا۔وہ ادارہ جس کا کسی زمانے میں طوطی بولتا تھا اور جو پورے علاقہ میں اپنے نظم و نسق اور تعلیمی ماحول کی بنا پر مثالی ادار ہ تھا۔آج اپنوں کی بے حسی کی وجہ سے آنسو بہا رہا تھا۔اسکول کی بابت وہاں کے طلبہ، اساتذہ اور مقامی لوگوں سے بات کرکے کافی تکلیف ہوئی۔کئی لوگوں نے اسے منتظمین کی کوتاہی کا نام دیا،تحقیق کرنے پر کئی وجوہ سامنے آئے میں نے دہلی آنے کے بعد جماعت اسلامی کے ذمہ داران کو اس جانب توجہ بھی دلائی اور ایک تفصیلی خط بھی لکھا جس پر تعلیمی امور کے ذمہ دار جناب اشفاق صاحب نے مجھے فون کے ذریعہ جلد ہی کاروائی کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ،انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ جلد ہی وہاں کا دورہ کرنے والے ہیں لیکن معاملہ ہنوز سرد خانہ میں پڑا ہوا ہے۔

 میں نے اس اسکول میں مکتب پنجم تک تعلیم حاصل کی۔ہم کلاس میں کتنے بچے تھے یہ تو یاد نہیں لیکن ہاں چالیس ،پچاس سے کم نہیں رہے ہونگے ،یہاں آس پاس کے دیہات کندی ،مورو،ٹٹکندو،نگڑی اور پسکا و رانچی تک کے بچے پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ لیکن ان میں سے سوائے چند ایک کے کوئی بھی یاد نہیں رہ گیا ہے جن ساتھیو کے نام ابھی میرے ذہن میں ابھر رہے ہیں ان میں سے چند ایک کے نام کچھ اس طرح ہیں عارف حبیب ،آصف،ارشاد ، افروز،راشد ،فردوس ،رقیہ ،نزہت ،راحت وغیرہ۔ان میں سے کس نے آگے تعلیم جاری رکھی اور کون کہاں گیا مجھے کچھ پتہ نہیں ہاں مذکورہ بالا ناموں میں ایک نام مجھے کبھی نہیں بھولے گا اور وہ ہے میرے ہر دلعزیز دوست اور راز عارف حبیب کا جنھوں نے جامعۃ الفلاح سے عالمیت تک کی تعلیم حاصل کی اور عصری علوم کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا رخ کیا ،یہاں سے عربی زبان میں گریجویشن کے بعداب کسب معاش کے سلسلہ میں ریاض میں مقیم ہیں ،اب ان سے بھی محض فون اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی ملاقات ہو پاتی ہے۔ان کی اہلیہ فردوس اطہربھی میرے کلاس کے ساتھیو میں سے ہے، گزشتہ سال دہلی قیام کے دوران دونوں سے ملاقات ہوئی تو کافی دیر تک ماضی کی یادوں پر گفتگو ہوتی رہی ،پرانی یادیں اور بچپن کی شرارتوں کو یاد کر ہم کافی محظوظ ہوئے۔

 درس گاہ میں تعلیم کے دوران ہی کچھ دن میرا دارالعلوم بنا پیڑھی میں بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا ،غالبا ان دنوں میں مکتب پنجم میںتھا۔میرے چچا محترم مولانا محمد ابراہیم ندوی یہیں پڑھایا کرتے تھے ،لیکن بہت زیادہ چھوٹا ہونے اور امی ابوکی یاد میں رونے کی وجہ سے چچا نے مجھے گھر واپس چھوڑ دیا ،یہ مےرا نو یا دس کا سن رہا ہوگا۔اس کے بعد ابا محترم نے اس ڈر سے کہ میں کہیںغلط صحبتوں میں نہ پڑ جاوں مجھے درسگاہ اسلامی میں ڈال دیا جہاںابھی نیا نیا ہاسٹل کھلا تھا،اس درمیان ابو کے ذہن میں یہ بات ضرور رہی ہوگی کہ وہ مجھے باہر پڑھنے کے لئے بھیجیں گے اور انھوں نے مجھے محض عادت ڈالنے کے لئے یہاں ڈالا تھا۔صبح صبح روزانہ سائیکل چلا کر ابو خود ملنے کے لئے آتے ،امی ناشتہ میں حلوہ،پوریاںاور نا جانے کیا کیا بنا کر بھیجتی ،آپا میرے کپڑے دھل کر اور پریس کر کے بھیج دیا کرتی تھیں،میں ہر جمعرات کو گھر جاتا رات وہیں گزارتا اور جمعہ کو ابو کے ساتھ ہاسٹل آجاتا،میں ہاسٹل آتے ہوئے کبھی خوش نہ رہتا ہمیشہ روتا ،مجھے ہاسٹل میں بالکل جی نہیں لگتا تھا ،جب کبھی بھی ابو ہاسٹل پہنچانے کی بات کرتے تو میں نہ جانے کی ضد کرتا ،روتا اور حیلہ بہانہ تراشتہ لیکن پھر بھی ابو مجھے ہاسٹل پہنچا دیتے۔ایسے موقع پر ابو مجھے بڑے ظالم نظر آتے تھے۔

 میر ا ننھیال گاں میں ہی تھا، میں بھاگ کر وہاں پہنچ جاتا، مجھے نانا ،نانی ،خالہ ،ماموں اور ممانی سبھی خوب مانتے لیکن ان سبھوں میں مجھے نانی ہی سب سے زیادہ مانتی تھی ،میںجب بھاگ کر نانی کے گھر جاتا تو نانی مجھے خوب پیار کرتی اپنے پوتے پوتیوں سے چھپا کر مٹھائیاںیا اور کوئی کھانے کی اچھی چیز رکھی ہوتی وہ مجھے لاکر دیتی ،پیسے دیتی اور پھر سمجھا بجھا کر ہاسٹل جانے پر راضی کر لیتی ،میں نانی کے کہنے پر ہاسٹل تو چلا جاتا لیکن پھر دوسرے دن بھاگ آتا نانی پھر ویسے ہی کرتی اور بہلا پھسلا کردوبارہ ہاسٹل بھیج دیتی۔نانی کی مجھ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں ،وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نا تھی لیکن تعلیم کی اہمیت سے خوب واقف تھی ،مجھے قصہ کہانیاں سناتی ،پرانے زمانے کے واقعات بتاتی اوراپنی آپ بیتی اس انداز سے سناتی کہ جی چاہتا سنتے ہی رہیں ،نانی کو میںکلمہ، مثنون دعائیں اور حمد و نعت سناتا تو بہت خوش ہوتی اور اپنے دو پٹہ کے آنچل سے کھول کر ہاتھوں میں پیسے تھما دیتی میں خوش ہوجاتا اور پھر ہاسٹل چلا جاتا،مجھے یاد پڑتا ہے جب کبھی میں ہاسٹل نہ جانے کی ضد کرتا اور رونے لگتا تونانی بھی رو دیتی ،نانی نے کئی مرتبہ ابو سے مجھے ہاسٹل نہ بھیجنے کی سفارش بھی کی ،آج میری نانی اس دنیا میں نہیں ہے تو شدت سے ان کی یاد آ رہی ہے ،میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔یاالہ العالمین تو میری نانی کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔

 درسگاہ اسلامی اٹکی کے ہاسٹل میں جن شخصیات سے مجھے بطور خاص استفادہ کا موقع ملا ان میں مولانا نسیم انور ندوی، مولانا عبد الحفیظ کامی اور مولانا انعام اللہ رحمت ندوی قابل ذکرہےں۔اول الذکر نے ہم طلبہ کے اندر تقریر و تحریر کا ذوق پیدا کیا ،ثانی الذکر ہاسٹل کے بچوں کو بعد نماز فجر خوشخطی ،انگریزی اور ریاضی سکھایا کرتے تھے جبکہ ثالث الذکر قرائت قران مجید، حمد ونعت اور ترانہ وغیرہ کی مشق کراتے ،آخر الذکر کی آواز بہت اچھی تھی جب وہ ”اللہ لے چل مورا مدینہ “اور” خودی کا سر نہاں لا الہ ا لا اللہ “اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔الحمد للہ تینوں ابھی باحیات ہیں اور اسی ہمت ،حوصلہ اور خلوص کے ساتھ علم کی شمع کو روشن کرنے میں مصروف ہیں اللہ ان کو مزیدصحت اور طاقت دے۔

 میرے اندر مطالعہ کا شوق بھی ا ن ہی دنوں پیدا ہوا ہمارے اسکول میںچھوٹے بچوں کے لئے لائبریری کا انتظام تو نہیں تھا ،ہاں گھر پر ابو اور چچا کی کچھ کتابیں تھیں لیکن وہ بچوں کے لئے نہیں تھیں ،ابو نے میرے اس ذوق کی تسکین کے لئے گاں کے ہی ایک کتب فروش جنھیں ہم لوگ چھوٹے ابو کہا کرتے تھے ان کا نام عالمگیر ہے ،میںموقع ملتے ہی چچاعالمگیر کی دکان پر جاتا اور” سندباد جہازی“،”گل بکاولی“،”کوہ قاف“،”کچھوے کی جیت“،”طفلستان“ اور پریوں کی کہانیاں جےسی کتابےں لے کرآتااور انہےں خوب مزے لے لے کر پڑھتا۔مجھے یاد ہے کہ عارف کے ماموں ماسٹر اقبال جنھیں ہم لوگ چھوٹے ابو کہا کرتے تھے کے یہاں ”نور“ اور”ہلال“بھی آیا کرتا تھا۔میں وہاں سے اس کے پرانے شمارے بھی لاکر پڑھتا تھا۔

 درسگاہ سے ابھی میں نے تعلیم مکمل بھی نہ کی تھی کہ ابونے مجھے چچا کے ساتھ پھر مدرسہ تعلیم القران تنگن گنڈی بھٹکل بھیج دیاتاکہ میں عربی کی تعلیم حاصل کر سکوںیہاںمیرا داخلہ مکتب ششم مجوزہ درجہ عربی اول میں ہوا تھا ، اساتذہ میں مولانا ایوب ندوی اور مولانا اسحق ندوی یاد رہ گئے ہیں اول الذکر نحو جبکہ ثانی الذکر ادب پڑھاتے تھے ،چچا محترم عربی انشاءاور اردو پڑھاتے ، اب دارالعلوم بنا پیڑھی کو چھوڑ کر چچا پڑھانے کی غرض سے یہاں آ گئے تھے ،یہ مسلم آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت گاں تھا ،میںیہاںصرف ایک سال رہالیکن اس کی مدھم مدھم سی یاد ابھی بھی میرے ذہن میںباقی ہے ،ناریل اور کاجو کے درخت میں نے پہلی مرتبہ یہیں دیکھے۔جب میںیہاں پہنچا تو کئی دن تک نیند نہیں آئی مجھے محسوس ہوتا تھا سامنے سے کوئی ٹرین گذر رہی ہے میںتو کئی دن تک یہی سمجھتا رہا کہ قریب ہی ریلوے اسٹیشن ہے اور یہ دھڑام دھڑوم کی آواز وہیں سے آ رہی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ٹرین کی آواز نہیں بلکہ سمندری لہروں کے سر پٹکنے کی آواز ہے جسے عرف عام میں مدو جذر کہا جاتا ہے ۔

 یہ جگہ واقعی بڑی خوبصورت اور پر لطف تھی ۔میں وقت گذاری کے لئے اکثر بعد نماز عصر سمندر کے کنارے دیر تک ٹہلا کرتا۔دور تک سمندر کے کنارے بچھائے گئے پتھر پر بیٹھ کر تلاطم خیز موجوں اور ان کے تھپیڑوں کو دیکھ کر میں سب کچھ بھول جاتا تھا۔اور تنہائی میں امی ،ابو ،بھائی بہن اور گھر کو یاد کرکے روتا بھی ،پتہ نہیں کیوں میں یہاں ایک سال رہا لیکن امی ابو بھائی بہن سب کے چھوٹ جانے کا غم اکثر ستایا کرتاان سب کو یاد کر کے میں جی بھر کے روتا۔ کر رات کو اتنا زیادہ کہ تکیہ بھیگ جایا کرتا، گرچہ یہاں چچی تھی ساتھ میں چچا زاد بھائی اور بہن بھی لیکن حقیقی ماں باپ اور بھائی بہن جیسی محبت کوئی نہیں دے سکتا۔ چچا کے کہنے کے باوجودچچی اپنے اولادوں سے جس انداز سے پیار کرتی مجھے ویسا پیار نہیں دے سکتی تھیں اورظاہر ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا یہ ان کی مجبوری تھی اور انسانی فطرت کا خاصہ بھی اگر اس کی جگہ میری اپنی سگی امی بھی ہوتی تو شاید ان کا رویہ اپنے اولاد کےساتھ جیسا ہوتا دوسروں کے اولاد کے ساتھ ویسا نہیں ہو سکتا تھا۔

 پھر بھی یہاں ایک دو واقعوں کا ذکرنا مناسب نا ہوگا ایک مرتبہ میرے بدن پر خارش نکل آئی ،جس نے مجھے بہت زیادہ پریشان کردےا،ایک پل بھی سکون نہ ملتا تھا ،کافی پریشانی کی حالت میں مدرسہ سے میں چچا کے یہاں آیا ،چچی نے کسی طرح کی کوئی توجہ نہ دی،میں حمیرہ کو گود لینا چاہتا تھا ،مجھے شروع سے ہی بچے بہت اچھے لگتے ہیں ،چچی نے منی کو چھونے نہ دیا ،میں بشری ،طہ کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا چچی نے دونوں کو اندر بلا لیا۔غالبا جمعہ کا دن تھا چچا نے کہا تم نہا لو پھر دوا دلانے ساتھ لے چلیںگے ،میں نہانے کے لئے جب غسل خانہ گیا تو چچا نے کہا کہ کپڑے نہ دھلنا چچی دھل دیں گی ،مجھے ایک مرتبہ کو تردد تو ہوا لیکن پھر چچا کے کہنے کی وجہ سے میں کپڑے غسل خانہ میں چھوڑ دئے اور نہا کردوسرے کپڑے پہن لئے ،دوا دلانے کے بعد چچا نے مجھے مدرسہ میں ہی چھوڑ دیا ایک ہفتہ بعد میں پھر چچا کے یہاںآیا کپڑالینے کے لئے۔ لیکن گھر آنے پر پتہ چلا کہ کھجلی والے کپڑے چچی کیونکر دھلتی۔جب میں غسل خانہ کپڑے لینے کے لئے گیا تو کیا دیکھتا ہوںہفتہ بھر پانی اور دھوپ میں بھیگنے کے سبب کپڑے خراب ہو چکے ،جگہ جگہ کالے پھپھوند پڑ چکے ہیں ،میں رو رو کر انھیں کپڑوں کوخود دھلتا ہوں لیکن کالے دھبے نہیں مٹتے ،سسکیوں کے ساتھ جب رونے کی آوازچچا نے سنی تو یہ کہ کر چپ کیا کہ تمہیں نیا کپڑے خرید دیں گے ،لیکن چچا نے نئے کپڑے نہیں خرید ے شاید چچی کے ہاتھوں وہ بھی مجبور تھے۔

 ایک اور واقعی چچا کے یہاں کہیں سے مٹھائیاں آئیں ،کھیلتے کھیلتے میں چچا کے گھر جا پہنچا ،چچی اس وقت مٹھائیاںاپنے بچوں کے درمیان تقسیم کر رہی تھیں۔چچی نے جیسے ہی مجھے دیکھا جھٹ مٹھائی اپنے آنچل میںچھپا لیا کہ جیسے میری نظر ہی نہیں پڑی۔چچی کی یہ حرکت میرے دل کو لگی اور میں الٹے پاوں مدرسہ واپس آ گیا۔ظاہر ہے اگر اس کی جگہ میری اپنی ماں ہوتی تو کبھی ایسا نہ کرتی۔اس کے علاوہ بھی اور ڈھیروں ایسے واقعات ہیں جس کا تذکرہ نہ کرنا ہی بہتر ہے۔لیکن ہاں اتنا ضرور ہے کہ انھیں وجوہ کی بنا میں اکثر سوچا کرتا ہوں کہ مجھے ماں باپ کا پیار نہیں ملا۔میں نے ایک دو مرتبہ امی اور ابو سے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ابو نے یہ کہ کر ٹال دیا کہ ہا ں بغیر پیار کے ہی اتنے بڑے ہو گئے۔ لیکن بھلا میں امی اور ابو کو کیسے بتاتا کہ ایسا میں کیونکر کہتا ہوں۔اگر میں امی اور ابو سے ان واقعات کو بتاتا تو انھیں ضرور تکلیف ہوتی اور انھیں پتہ بھی چل جاتا کہ میں ایسا کیوں کہتا ہوںلیکن میں نے آج تک ان میں سے کسی بھی واقعہ کا کسی سے ذکر نہیں کیا ہے۔

 ایک سال گذار کر بھٹکل سے عید کی چھٹی کے موقع پررمضان المبارک میں چچا کے ساتھ جب گھر آیا توابواپنے چند دوستوں کے مشورسے مجھے اعظم گڈھ جامعۃ الفلاح یا مدر سۃ الاصلاح بھیجنے کا ارادہ کر چکے تھے ۔یہ مشورہ غالبا مولانا امین الدین اصلاحی کا تھا جو جامعۃ المحسنات کے نام سے لوہردگا ضلع میں لڑکیوں کا ایک ادارہ چلاتے ہیں ،بہر حال ابو نے جب مجھے یہ فیصلہ سنایا تو میں نے ہاں کہہ دی ،میرے ہاں کرنے کے پیچھے یہ بات بھی تھی کہ میں نے مکتب میں کہیں شہباز ہندی اور کوثر اعظمی کی کچھ نظمیں پڑھی تھیں جن کے تعارفی نوٹ میں بتایا گیا بتایا گیا تھا کہ انھوں نے مدرسۃ الاصلاح سے تعلیم پائی تھی میرے ننھے ذہن میں اسی وقت یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مجھے مدرسۃ الاصلاح پڑھنے جانا ہے اور ان جیسا ایک قلم کار بننا ہے۔

 لیکن امی کسی بھی طرح مجھے باہر بھیجنے کے لئے راضی نہ تھیں ،مجھے آج بھی یاد پڑتا ہے جس دن مجھے اعظم گڈھ کے لئے روانہ ہونا تھا،اس رات امی بار بارمیرے پاس آتی اور میرے چہرے سے چادر اٹھا کر نا جانے کیا دیکھتی ،کبھی میرے گال کو چومتی تو کبھی میرے پیشانی کو، امی کی بار بار کے اس عمل سے جب میری نیند کھل گئی تو انھوں نے مجھے گلے لگا لیا اور کہنے لگی بھلا میں اس چھوٹے سے بچے کو کیسے اکیلے باہر بھیج سکتی ہوں،بھٹکل میںتو دیکھ ریکھ کرنے والا ابراہیم تھا تو کم از کم اطمینان رہتا تھا ،پھر کہتی نہیں نہیں میں نہیں جانے دونگی اور پھر گلے لگا کر رونا شروع کر دیتی ،صبح بھی امی کا یہی رویہ رہا ابو کو بھی تشویش ہوئی تو انھوں نے گاں کے ہی کئی بچوں کو ساتھ پڑھنے کے لئے بھیجنے کا ارادہ کیا ،لیکن کوئی بھی اپنے لخت جگر کو اپنے سے دور بھیجنا نہیں چاہتا تھا یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کی نظر مستقبل پر ہو اور جس کے اندر عزم ،ہمت اور حوصلہ ہو۔

 مجھے اچھی طرح معلوم ہے ابو بھی مجھے اپنے سے جدا کرنا نہیں چاہتے تھے،اپنی اولاد کسے پیاری نہیں ہوتی کوئی نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد نظروں سے اوجھل ہو ،لیکن ابو میرے بارے میں کچھ خواب سجائے ہوئے تھے اسی لئے انھوں نے دل پر پتھررکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا۔خیر کافی سمجھانے بجھانے کے بعد ایک دور کے ماموں کو ابو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے اپنے بیٹے کوبھی میرے ساتھ بھیجنے کا ارادہ ظاہر کر دیا، ابو بڑے خوش ہوئے اور ہم دونوں یعنی راقم الحروف اور ماموں زاد بھائی دانش عبد اللہ کو استاذ محترم مولانا انعام اللہ رحمت ندوی کی معیت میں اعظم گڈھ تعلیم کے لئے روانہ کر دیا۔میں آج بھی اس جدائی کے منظر کو نہیں بھول سکتا جب میں نے گھر سے نکلتے ہوئے امی ،نانی ،خالہ ،ممانی اور باجی ان سب کی آنکھوں کو ڈبڈبائی ہوئی دیکھا ،نانی تو فرط جزبات میں آنچل اٹھائی ہوئی رو رو کر میری کامیابی کی دعائیں دے رہی تھیں۔مجھے رانچی بس اسٹنڈ تک چھوڑنے کے لئے ابو کے ساتھ ساتھ ماموں ،چچا اوربھائی جان بھی آئے تھے سبھوںنے مجھے ڈھیر سارے روپئے اور طرح طرح کے سامان خرید کر دئے ،ماموں نے روپیوں کے علاوہ بہت سارے پوسٹ کارڈ اور لفافہ بھی دئے اور تاکید کی کہ جاتے ہی خط لکھنا ماموں نے توپوسٹ کارڈوں اور لفافوں میں پتے تک لکھ دئے تھے تاکہ مجھے پتہ بھی لکھنے میں دشواری نا ہو۔

 مجھے یہاں پر ایک واقعہ اور یاد ہے شاید اسے میں کبھی نہیں بھولوں گا یہ سردیوں کا موسم ہے ،کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے ،شام کے غالبا چھہ بج رہے ہیں گاڑی کے آنے میں ابھی ذرا دیر ہے ابو مجھے ایک ہوٹل میں لے جاتے ہیں، دو چائے کا آرڈر دیتے ہیں، چائے والا چائے لے کر آتا ہے ابو ایک مجھے دیتے ہیں اور ایک خوداپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ،اب ابو مجھے نصیحت شروع کرتے ہیں”بیٹا دل لگا کر پڑھائی کرنا ،پہنچتے ہی فون ضرور کرنا ،وقت ضائع نہ کرنا ،کسی بھی قسم کی پریشانی ہو تو بلا جھجھک بتانابیٹا !میری لاج رکھنا،تم سے بڑی امیدیں ہیں“ یہ کہتے کہتے ابو کی آواز رندھ جاتی ہے اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ ابو کی آنکھیں ڈبڈبا گئی ہیں وہ آنسووں کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں لیکن آنسوہیں کہ چھپنے کا نام ہی نہیں لیتے ابو کو روتا دیکھ کر میں بھی رو دیتا ہوںتو ابو مجھے اپنے سینے سے لگا لیتے ہیں اوراپنے مفلر سے آنسو پوچھتے ہیں اورمجھے چپ کرتے ہوئے وہ مفلر میرے کاندھوں پر لپیٹ دیتے ہیں،میں سویٹر پہنا ہوا ہوں مجھے ٹھنڈ بھی بالکل نہیں لگ رہی ہے،لیکن اس کے باوجود ابو مفلر کو میرے گلے سے لپیٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں چلو کہیں بس کھل نہ جائے اور پھر ابو لمبے لمبے قدم بڑھاتے ہوئے بس کی طرف چل پڑتے ہیں ،میں بھی ان کی انگلی تھامے ان کے پیچھے چل پڑتا ہوں،سوار ہوتے ہی گاڑی فضا میں دھواں بکھیرتی ہوئی منزل کی طرف چل پڑتی ہے ،میں گاڑی کے شیشہ سے ابو ،ماموں ،بھائی جان،چچا سبھوں کو دیکھ رہا ہوں،سب اپنی اپنی باتوں میں محو ہیںسوائے ابوکہ جو دیر تک گاڑی کو دیکھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ گاڑی دور نکل جاتی ہے ، اور اب ابوبھی مری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں،لیکن دل کی نظروں سے ابواب بھی مجھے وہیں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ابو کا وہ مفلر آج بھی میرے پاس ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس میں میرے ابو، مجھ سے ٹوٹ کر پیار کرنے والے ابو کی محبتوں کے آنسو جذب ہیں۔

  ایک اور واقعہ سن لیجئے یہ بھی میرے اسکول کے زمانہ کی ہی بات ہے۔یہ یاد نہیں ہے کہ اس وقت میںکس کلاس میںتھا

 یہ گرمیوں کا موسم تھا ،ہم بچے گھر کے بر آمدے میں کھیل رہے تھے۔کہار اپنے کاندھوں پر اور آدی واسی خواتین اپنے سروں کے اوپر کچے آموں کی ٹوکریاں لئے ”آم لے لو ،آم لے لو“کی آواز لگاتے ہوئے گلی سے گذر رہے تھے۔امی نے آ م والوں کو رکوایا اور مول بھاکرنے لگی ،غالبا زیادہ مہنگے ہونے کے سبب امی نے آم نہیں خریدے۔لیکن میں نے ایک بڑھیا کی ٹوکری میں سے دو آم چرا کر چپکے سے چاول کی بوری میں چھپا دیا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور دو چار دن میں کھانے لائق ہو جائیں گے۔لیکن یہ کیا جب دوپہر کے کھانے کے لئے امی بوری میں سے چاول نکالنے گئی تو اس میں سے دو تازے کچے آم دیکھ کر حیران ہوئی انھوں نے اندازہ لگا لیاتھا یہ صبح والے ہی آم ہیں ،خیر پوچھ گچھ شروع ہوئی کہ بوری میں آ م کس کے ہیں ،اس بابت جب مجھ سے دریافت کیا گیا تو جیسے میری زبان ہی گنگ ہو گئی ،امی کو اب ماجرا سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ آم میں نے بڑھیا کے ٹوکری میں سے بغیر اجازت لئے ہیں۔ اسوقت تک ابو بھی اسکول سے واپس آ چکے تھے۔ابو کو جیسے ہی اس بات کا انکشاف ہوا کہ شریف زادے نے آم چوری کئے ہیں۔ابو یوں بھی شروع سے ہی سخت مزاج ہیں ،ایسے موقع پر ان کا رویہ اوربھی سخت ہو جاتا ،آنکھیں سرخ ہو جاتیں ،چہرہ تمتما اٹھتا اور غصہ سے لال پیلےہو جاتے۔یہ سنتے ہی انھوں نے میری وہ درگت بنائی کہ الامان و الحفیظ وہ تو اچھا ہوا امی سامنے آ گئیں ورنہ میری کیا حالت ہوتی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ابو نے مجھے سزا سناتے ہوئے کہا کہ میں آم والے کو نہ صرف آم واپس لوٹا آں بلکہ اس سے معافی بھی مانگوں اور جب میں نے ایسا کیا تبھی انھوں نے گھر میں قدم رکھنے دیا۔اس واقعہ کے بعد سے آج تک مجھے بلا اجازت کسی کا ساما ن اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

 ایک اور واقعہ جو آج بھی مجھے دہلا دیتاہے ،ہم امردوتوڑنے اپنے چچیرے دادا کے یہاں گئے ہوئے تھے۔جو ہمارے گھر سے کچھ ہی دور پر تھا۔یہاں پر ہمارے دادا کی کافی زمینیں تھیں جن میں مختلف قسم کے پیڑ پودے لگے ہوئے تھے ،لیکن دادا کے ہاں کے امرودوں کی کچھ بات ہی الگ تھی ،میٹھےبڑ ے بڑے خوبصورت امرود کہ دیکھ کر اچھے اچھوں کا جی للچا جائے ،ہم تو ٹھہرے بچے۔دادای اماں جھولی میں بھر بھر امرودگھر پہنچا جاتی ،لیکن جو مزا خود سے توڑ کے کھانے میں ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ایک دن دادی کے منع کرنے کے باوجود میں درخت پر چڑھ گیا اور بندروں کی طرح کبھی اس ڈالی سے اس ڈالی اور کبھی اس ڈالی سے اس ڈالی امرودتوڑتا اور کھاتا رہا، بڑا مزا آ رہا تھا۔جس درخت پر میں چڑھا تھا ٹھیک اس کے سامنے گہرا کنواں تھا مجھے اس کا اندازہ ہی نہ تھا۔اچانک ایک ڈالی ٹوٹتی ہوئی رٹ رٹ کی آواز کے ساتھ نیچے آ رہی۔نیچے جو نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کنواں خطرناک اڑدہاکی طرح منہ کھولے کھڑا ہے۔یہ دیکھتے ہی اچانک میری چیخ نکل گئی ،مجھے موت انتہائی قریب نظر آنے لگی اور ایسا محسوس ہوا جیسے میں واقعی مر گیا ،تھوڑی دیر کے لئے سانس جیسے تھم سی گئی۔مری زبان سے بس یہی نکلا”اللہ بچا لے“۔ سچ کہا کہنے والے نے ”مصیبت کے وقت خدا یاد آتا ہے “اسی لمحہ اچانک ایک دوسری ڈال میرے ہاتھ کی گرفت میں آ گئی اور میں اس کی مدد سے زمین پر صحیح سلامت اترنے میں کامیاب ہوگیا۔واقعی یہ اللہ کا کرم تھا ورنہ اس دن میں کنویں میں گر ہی گیا تھا۔آج بھی جب میں دادی کے یہاں جاتا ہوں یہ منظر نہیں بھولتا ،بدن میں کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔
12/aug/2012



1 تبصرہ جات:

گمنام نے لکھا ہے کہ

Dear Alamullah,
DUAGO
I read your opinion of your life. So I suggest you please send to your relatives,teachers and friends.I am very happy (aur aage badho taraqqi karo yehi meri dua hai)

Thanks
Umar Sajjad Kami (TIPU Bhaijan)
Email- sajjadkami@gmail.com
Mob. 9955924988, 9431334488