جمعہ، 4 جنوری، 2013


عصمت دری اور فحش اشتہارات میں میڈیا کا کردار
محمد علم اللہ  اصلاحی
نئی دہلی
میڈیا کا اخلاقی فرض ہے کہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں سے سماج کو روشناس کرائے۔ ملک اور سماج کے مفاد کے لئے عوام کو بیدار کرے۔اور معاشرے میں پھیلی ہوئی ہر قسم کی برائیوں سے نجات دلانے کے اقدامات کرے، لیکن ایسامحسوس ہوتا ہے کہ پیسہ کمانے کی اندھی دوڑ میں جمہوریت کا یہ چوتھا ستون اپنی تمام تر اقدار اور اخلاقیات کو پامال کرچکاہے ۔ تمام اخبارات میں ایڈیٹران روزانہ بڑے بڑے اداریہ اور مضامین لکھ کرانسانیت کا درس دیتے اور عوام کو اپنے قلم کی طاقت سے آگاہ کرتے نہیں تھکتے، الیکٹرانک میڈیا کا بھی یہی حال ہے لیکن عملی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دولت کی جھولی بھرنے کے لئے تمام قوائد و قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ تمام پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں فحش اور غیر اخلاقی اشتہارات کی بھر مار ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے لوگ گمراہ ہو رہے ہیں۔ لیکن کسی میڈیا والے کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ ان اشتہارات کی حقانیت کو پرکھنے کی کوشش کرے۔ دولت کمانے کی’ ہوس‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ’کاوش‘ اور ہر جائز ناجائز طریقے سے اپنے حریف پر سبقت لے جانے کی ’کوشش ‘نے میڈیا کے اس رویہ کو ایک غیر اخلاقی عمل بنادیا ہے۔ مانا کہ ایڈورٹائزنگ مارکیٹنگ کا ایک اہم اور لازمی جزو ہے جس کا بنیادی مقصد خریدار کو متوجہ کرنا، اسے پراڈکٹ کے بارے میں تفصیلات بتانا اور خریدنے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن اسی کے ذریعہ عورت کے وجود کا ایک ایک انگ اور حصہ نمایاں کرنے اور کیش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نیم عریاں عورت کے ساتھ ساتھ ، فحش ڈائلاگز، بے ہنگم موسیقی، آبرو باختہ لطیفے ، نوجوانوں کو رات بھر عشقیہ باتوں کی ترغیب اور دیگر پہلو بھی شامل ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ اس آندھی نے پورے معاشرے کو اس طور پر لے لیا ہے کہ ہندوستانی ثقافت کی دھجیاں اڑتی نظر آرہی ہیں لیکن اسے کوئی برائی تصور کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے ۔ انگریزی اخبارات میں پہلے اور اب بھی مساج پارلرزکے اشتہار طرح طرح کے ناموں سے شائع ہو رہے ہیں۔ اشتہار میں کوئی ماڈل لیٹی ہوئی نسوانی اعضاءکو نمایاں کر رہی ہے تو کسی میں برہنہ پشت کی نمائش جار ی ہے۔ کہیں چست لباس اعضاء کو ابھارنے میں مصروف ہے تو کہیں خطرناک حد تک چاک گریباں ناظرین و قارئین کودعوت گناہ دے رہا ہے۔ ان اشتہارات میں صاف کہا جارہاہے کہ مساج کے لئے روسی، افغانی، کشمیری، پنجابی، ترکی، رشین، ہسپانوی ماڈل قسم لڑکیاں موجود ہیں جو فائیو اسٹار اور سیون اسٹار ہوٹلوں میں ہی اپنی سروس دیتی ہیں۔ رابطہ کرنے کے لئے ان کا فون نمبر بھی اخبارات میں موجود ہوتا ہے۔ کونٹکٹ کرنے پر یہ انگریزی زبان میں اپنی فیس اور مساج کے نام پر کس طرح کی سروس وہ فراہم کریں گی تک کی تفصیلات دی جاتی ہیں۔ ان اشتہارات میں یہ واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ تمام کریڈٹ کارڈ قبول کئے جائیں گے۔ فل باڈی مساج کے نام پر کھلی جسم فروشی، تشہیر کی زبان سے یہ سمجھ لینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس طرح اسکارٹ ایجنسیوں کے اشتہارات بھی خوب شائع ہوتے ہیں۔اسکارٹ ایجنسیاں لوگوں کو خاتون اسکارٹ فراہم کرتی ہیں یہ ملکی اور غیر ملکی، دونوں طرح کی ہوتی ہے۔ ان سے رابطہ کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر ان تصاویر کے ساتھ ان کی قیمت اور ان کی طرف سے فراہم کی جانے والی خدمات کی تفصیلات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔

دراصل یہ ہائی پروفائل حرافائیں ہوتی ہیں جواپنے اپر کلاس گاہکوں کے ساتھ سیر سپاٹے پر بھی جاتی ہیں انٹرنیٹ پر ہر شہر کی ہائی پروفائل جسم فروش خواتین کی تصاویر، فون نمبر اور ریٹ صاف صاف لکھے ہوتے ہیں۔ جہاں تک مساج پارلرز کا سوال ہے کئی عورتوں میں یہ ذکر رہتا ہے میل ٹو میل مساج۔ ان اشتہارات میں واضح اور کھلے الفاظ میں لکھا رہتا ہے کہ کمسن افغانی، کشمیری اور دیگر امرد لڑکے دستیاب ہیں ۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ میل ٹو میل مساج کے تحت کیسے گل کھلائے جاتے ہوں گے۔ لیکن اس طرح کی فحش اشتہارات پر روک لگانے کی آواز کہیں سے بھی اٹھتی نظر نہیں آتی۔ اب تو ان سے بھی آگے بڑھے ہوئے اشتہارات اخبارات میں نظر آنے لگے ہیں جن کے اشتہارات میں لکھا ہوتا ہے ’ ضرورت ہے امرد لڑکوں کی، ماڈلوں اور ہائی پروفائل عورتوں کا مساج کرنے کے لئے یومیہ 000 10روپے سے زیادہ کمائیں'۔مختلف اخباروں میں اس طرح کے آٹھ دس اشتہارات کا مل جانا کوئی معمولی بات ہے ۔اور تو اور اب کچھ نجی موبائل کمپنیاں بھی ماہانہ فیس لے کر فری نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان دوستی کروانے کا ثوابی کام کر رہی ہیں۔ اس طرح نوجوانوں اور ہر عمر کے لوگوں کو ٹھگنے والے اس بات سے بھلی طرح واقف ہوتے ہیں کہ سماج میں زیادہ تر لوگ جنسی بیماریوں میں مبتلا ہیں ان کی اس بیماریوں سے فائدہ اٹھانے والو ں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔

ان سب کے باوجود ایسے نام نہاد ترقی پسندوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو جسم فروشی اور ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کی وکالت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر جسم فروشی اور ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا جائے گا تو ایڈز جیسی خطرناک بیماریوں پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن حکومت نے جسم فروشی سے متعلق قوانین کا جائزہ لینے کے دوران یہ کہا ہے کہ کسی طوائف کے یہاں کلائنٹ کے طور پر جانے والے شخص کو بھی مجرم تصور کیا جائے گا اور اس کے لئے سخت سزا کا انتظام کیا جائے گا اگر ایسا ہوتا ہے تب تو ٹھیک۔ مگر صاف پانی کے تالاب میں گندگی ڈالی جائے تو پانی دھیرے دھیرے گدلا ہونے لگتا ہے اور اس کا دیکھنے والوں کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمارے اشتہارات میں یہ غیر اخلاقی پہلو اس آہستگی کے ساتھ سرایت کررہاہے کہ اب یہ سب کچھ شرفاءکو بھی برا نہیں لگتا۔ اس کے نتیجے میں   پورا معاشرہ نیم عریانی، فحش کلامی، گھٹیا مذاق اور بے ہنگم موسیقی کے ساتھ سمجھوتہ کرتا نظر آرہا ہے۔ایسے بہت سے اشتہارات ہیں جن میں کوئی پتہ نہیں ہوتا، صرف موبائل نمبر دے دیا جاتا ہے۔ کیونکہ لاکھ کوشش کرنے کے باوجودبھی ایسے مشتہرین نے اپنا پتہ نہیں بتایا۔ اس طرح کی کئی شکایات تھانے میں درج بھی کرائی گئی ہیں۔ لیکن اس پر کاروائی نہیں کے برابر ہوتی ہے ایسے مشتہر عوام سے رقم اینٹھ کر فرارہو جاتے ہیں۔ کیا ان کے جنسی استحصال میں میڈیا بھی برابر کا حصہ دار نہیں ہے؟ایڈیٹر کو معاشرہ اور ملک و سماج کے لئے ذمہ دار ہونا چاہیے، تبھی ان کے ادارتی تحریروں کے وقار کا احساس عوام کو ہو گا اور ان کے دروس و اسباق کا فائدہ ملک اور سماج کو مل سکے گا۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ آج سماجی برائی کے لیے کافی حد تک میڈیا بھی ذمہ دار ہے۔ اگر انٹرنیٹ کی بات چھوڑ دیں تو، اس طرح کے گمراہ کرنے والے اشتہارات سے کی جانے والی کمائی سے ملک میں اور خاص طور پر بڑے شہروں میں عصمت دری جیسے واقعات نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟

سالوں پہلے بھی جب پنجاب کیسری اخبار ،ڈلہی ٹائمس اور اس طرح کے دیگر اخبارات میں غیر ملکی خواتین کی فحش تصویر شائع ہوتے تھے تو بہت سے بیدار قارئین نے اس کی مخالفت کی تھی لیکن یہ آج تک جاری ہے ۔ستم بالائے ستم کہ بعض اردو اخبارات بھی اسی راہ پر چل پڑے ہیں اور اب اردو اخبارات میں بھی اس طرح کی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ صرف اسی وجہ سے ایسے اخبارات کو پسند کرنے لگ گئے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ ہر شخص امیر بننا چاہتا ہے، چاہے اس کے لئے سماج اور ملک کو کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ جب ہم نرمل بابا اور دوسرے مذہب کے ٹھیکیداروں، بدعنوان لیڈروں کو کوستے ہیں، تومیڈیا کے ذمہ داران اور اخبارات کے مدیران کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ ہم کیوں پیڈ نیوز اور اشتہارات کے ذریعہ چند لوگوں کے فائدہ کے لئے سماج کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں؟سماج کے کئی سرمایہ دار افراد اور امیر شخص ان دھوکہ بازوں کے شکار ہوتے ہیں، لیکن اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔اطلاعات و نشریات کے وزیر کئی بار ٹی وی پر بڑھتی ہوئی فحاشی کے خلاف بولتے ہیں اور چینلوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرحد کی لکیر خود طے کریں، یعنی فحاشی تو’ پروسیں‘پر اس کو’اوورڈوز‘ نہ ہونے دیں۔ سینسر بورڈ جو فلموں کو نمائش کے لیے سرٹیفیکیٹ دیتا ہے، وہ اطلاعات و نشریات کی وزارت کے تحت ہی آتا ہے۔ لیکن بورڈ میں چند افسران کے علاوہ زیادہ تر فلمی دنیا کے ہی لوگ رکن اور صدر ہوتے ہیں۔ یہ اعلان تو کرتے ہیں کہ فلم میں تشدد اور جنسی عناصرکے مناظر میں کمی لائی جائےگی، مگرکیا کمی آئی۔ جنسی، تشدد اور عریانی کے مناظر کی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

ضرورت ہے کہ میڈیا اور اخبارات و رسائل کے ذمہ داران عوام کے مفاد میں گراہک بن کر ایسے افراد کی سرگرمیاں معلوم کریں اور اس کاانکشاف کرکے ان کے ناپاک عزائم کو طشت ازدبام کرکے ان کے حوصلوں کو توڑیں ۔اس موقع پر صنعت کاروں ، تاجروں اور حکومتی اداروں کوبھی مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلا ش کرنا ہوگا تاکہ اس طرح کا ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنایا جائے جو مارکیٹنگ کے مقاصد بھی حاصل کرتا ہو اور فحاشی کے زمرے میں بھی نہ آئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نتیجے کے طور پر جنسی ناآسودگی، آبروریزی اور آزادانہ جنسی اختلاط کا ایک طوفان جنم لے گا جو محض چند طبقات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا شکار ہر دوسرا محلہ اور گھر ہوگا اور کیا خبر یہ اسی اشتہار دینے والے کا گھر ہو جس نے عریانی کے ذریعے دولت کمانے کی کوشش کی تھی۔