اتوار، 3 اپریل، 2016

ڈائری کے چند اوراق


محمد علم اللہ
18/ فروری /2016
کافی دنوں سے قلم سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے ، یا دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ لکھنے کا سلسلہ کچھ کم سا ہو گیا ہے ۔ کئی احباب نے اس پر خفگی کا اظہار کیا ۔ متعدد بزرگوں نے سرزنش کی ۔میرے استاذ محترم ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب (اللہ انھیں صحت و عافیت سے نوازے )باضابطہ مجھے ڈانٹ پلائی اور کئی مرتبہ فون کر کے میری اس تساہلی سے بیدار ہونے کی ترغیب دی ، اسی طرح بزرگوار محترم منصور آغا صاحب نے بھی کئی مرتبہ مجھے قلم نہ چھوڑنے کی تلقین کی بلکہ اس درمیان جو کچھ بھی میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی پھوٹی تحریریں فیس بُک پر ڈالی اسے خوبصورتی انداز میں سجا کر اپنے بلاگ میں جگہ دیا ، ڈائری لکھنے کی جانب توجہ دلائی۔ ان کے علاوہ فون ، میل اور واٹس اپ کے ذریعہ مجھ سے رابطہ کرنے ، خیریت دریافت کرنے اورنہ لکھنے کی کی وجوہات جاننے والوں کی تعدا د اتنی رہی کہ سب کے تذکرے کے لئے ایک مکمل فہرست درکار ہوگی ۔میں سبھی کا شکر گذار ہوں ۔ کئی لوگوں نے مجھے ان خوابوں کے بارے میں یاد دلایا جو میں اکثر دیکھا کرتا تھا ۔ میں ان محبتوں کا قرض ادا نہیں کر سکتا ۔بس خداوند سے سب کے لئے دعا گو ہوں ۔ اللہ سب کو صحت و عافیت سے رکھے۔
7/ مارچ /2016
حیدر آباد آئے ہوئے آج چھہ ماہ گذر گئے ۔ اس درمیان آفس کے کام کے علاوہ کوئی علمی و ادبی کام نہیں ہو سکا جس کا مجھے قلق ہے۔ ہاں !کچھ کتابیں مطالعہ میں ضرور رہیں لیکن اس کی رفتار وہ نہیں رہی جو اعظم گڈھ یا دہلی میں رہا کرتی تھی ۔ ایک زمانہ تھا جب احباب مجھے کتابی کیڑا کہا کرتے تھے ۔ اور اب ادھر کچھ ماہ سے کتاب بیزاری کا عالم یہ ہے کہ کتا ب ہاتھ میں اٹھاتا ہوں تو غنودگی طاری ہو نے لگتی ہے ۔ اب اخبارات سے بھی دل اچاٹ ہو گیا ہے ، ابھی چند ماہ قبل تک اخبار کے سارے در و بست چاٹ جایا کرتا تھا اب کئی کئی دنوں تک بنڈل بھی نہیں کھلتا ۔ آج اکٹھے کئی دنوں کے اخبار ایک ساتھ کھولا ، کچھ مضامین چھانٹ کر الگ کئے اور کچھ سرہانے رکھ لیا ہے جب موقع ملے گا پڑھوں گا ۔ حیدر آباد آنے کے بعد کئی محبین نے کتابیں بھجوائی ہیں ، اور کئی عمدہ کتابیں ہیں ۔ میں نے خود بھی اپنے ذوق کی تسکین کے لئے امیزون اور فلپ کارڈ سے کئی کتابیں خریدیں لیکن اسے پڑھنے کی نوبت ابھی تک نہیں آئی ہے ۔دیکھتا ہوں کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی ، ایک دن تو اونٹ کو پہاڑ کے نیچے آنا ہوگا ، پھر ہم ہونگے اور ہماری یہ کتابیں ۔
28/ مارچ /2016
کچھ دن قبل فیس بُک پر اسٹیٹس اپڈیٹ کیا تھا جس میں نئے لیپ ٹاپ خریدنے کی احباب کو اطلاع دی تھی ۔ سوچا تھا لیپ ٹاپ آتے ہی کچھ عملی کام کروں گا ۔ مگر کہنا مشکل ہے کہ وہ عملی کام کب شروع ہوگا ۔ روزانہ پلان بناتا ہوں مگر ائے بسا آرزو کہ خاک شدہ والی بات ہے ۔ آج کل نیند ہی اتنی آتی ہے کہ مت پوچھئے ، دفتر کا وقت بھی کچھ ایسا ہے کہ وقت کو ترتیب دینا یا ڈھب پر لانا ممکن نہیں ہو پا رہا ۔ جب آپ دو پہر دو بجے آفس کے لئے نکلیں اور دیر گئے رات کبھی ساڑھے بارہ تو کبھی ایک بجے رات کمرہ پہنچیں تو خاک کچھ مزید کام کرنے کو جی چاہے گا ۔کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ زندگی بھی عجیب ہے جسے چاہو وہ ملتی نہیں اور جو ملتی ہے وہ چاہت جیسی ہوتی نہیں ۔آفس کے کام سے دماغ اس قدر تھک چکا ہوتا ہے کہ کچھ اور کام کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ، یہاں روزانہ مرتا ہوں اور روزانہ جیتا ہوں ، یہ بات اعجاز عبید چاچو کو لکھ دیا تو انھوں نے کافی تفصیلی خط لکھا ہے جو میرے لئے ہمت افزا ہے ۔ موقع ملا تو کبھی آپ سے شیر کروں گا ۔
1 / اپریل /2016
یہ تیسرے جمعے کی نماز تھی جو مجھ سے چھوٹ گئی ۔ بہت شرمندگی ہوئی بس اللہ! معاف کرے ،اپنی دانستہ زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ آج دن بھر سورہ جمعہ کی آیتیں ذہن میں گر دش کرتی رہیں ۔}ائے ایمان والو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے آذان دی جائے تو خدا کی یاد (نماز ) کے لئے دوڑ پڑو ، اور خرید و فروخت بند کر دو ، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ پھر جب نماز ہو چکے تو اپنی اپنی راہ لو اور خدا کا فضل تلاش کرو ۔اور خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو تاکہ نجات پاو {اپنی ہٹ دھرمی پر خود ہی چہرے پر دو تین تھپڑیں رسید کیں ۔ قرار نہ ملا ۔ تو روم آکر نماز پڑھا اور اب یہ سطریں لکھ رہا ہوں ۔ شاید یہی بہانے اپنا احساس جاگے ۔ حیدر آباد میں جہاں ہ قیام ہے وہاں سے مسلم آبادی کافی دور ہے اسی وجہ سے نماز اکثر کمرے میں پڑھنی پڑتی ہے ۔ امی سے کئی دن جھوٹ بولا کہ نماز پڑھتا ہوں ، جماعت سے ، امی ! فون پر اکثر تاکید کرتی رہتی ہیں کہ نماز پڑھ کے آفس جایا کرو ۔ اگر انھیں پتہ چل گیا کہ میں تو وہ کافر ہوں جو جمعہ بھی چھوڑ دیتا ہوں تو کتنی دکھی ہوں گی ۔
5/اپریل 2016
روم میں اکیلے اب میں بور نہیں ہوتا ، کچھ دنوں سے پڑوسی کے دو بچے مجھ سے مانوس ہو گئے ہیں ۔ ایک دن میں نے بچوں کی امی سے کہہ دیا ، بچوں کو تھوڑی دیر کے لئے میرے پاس پڑھنے کے لئے بھیج دیا کیجئے ، میں پڑھا دیا کروں گا ۔ کارتک اور سائی پرکاش یہ دو خوبصورت بچے بھی بہت ہوشیار ہیں ۔ کارتک پانچویں جبکہ سائی پرکاش نویں میں پڑھتا ہے ۔ صبح تڑکے پڑھنے کے لئے آجاتے ہیں ، کبھی کبھی مجھے ان کے اوپر غصہ بھی آتا ہے کہ ان دونوں کی وجہ سے میری نیند چوپٹ ہو جاتی ہے لیکن مکھی مار کر اس لئے اٹھ جاتا ہوں کہ بڑے بوڑھے کہتے ہیں صبح جلد اٹھنا چاہئے ۔اس سے صحت بحال رہتی ہے ۔ ان بچوں کے بہانے میں کچھ اپنی بھی پڑھا ئی کر لیتا ہوں ۔سائی پرکاش سے میں خود بھی تیلگو سیکھ رہا ہوں ۔ علامہ شبلی نے کہیں کہا تھا مسلم علما کو ایک یورپی زبان ضرور سیکھنی چاہئے ، یہ نہ سہی ہندوستانی ہی ٹرائی کرنے میں کیا جاتا ہے ۔