منگل، 9 جنوری، 2018

اُداس نسلوں کے سہانے سپنے

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

”آدمی سکون کی تلاش میں کتنی ہی دُور کیوں نہ چلا جائے، آخر کار لوٹ کر اپنے احباب کی طرف ہی آتا ہے۔ اپنے پرانے دنوں کے بارے میں سوچ کر اور اپنے اس بچپن کی زندگی کو یاد کر کے زرا خوش ہو لیتا ہے لیکن پھر وہی شام، وہی رات اور وہی تنہائی ہوتی ہے۔ مجھے یہاں آنے سے پہلے معلوم تھا کہ پردیس میں لوگوں کا کیا احوال ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جب یہاں سے کوئی گھر جاتا تو میں اس سے کچھ پوچھوں، یا نہ پوچھوں یہ ضرور پوچھتا ہوں، کہ وہاں کیسا لگتا ہے! یہ میں اس سے صرف اس کی دلی کیفیات معلوم کرنے کے لیے پوچھتا تھا اور نتیجہ صد فی صد یہی نکلتا تھا کہ وطن سے باہر سب کچھ ہے لیکن سکون نہیں ہے۔ آج میں خود اس بے سکونی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ ہاں اگر سکون پیسے کو کہتے ہیں تو یقینا سکون یہاں حاصل ہے لیکن میں اس کا ہمیشہ سے ناقد رہا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پیسے کے بغیر آدمی خوش رہتا ہے؛ زندگی کی آسایشوں کے لیے پیسا ایک ضروری شئے ہے، لیکن سب کچھ اس پیسے کو سمجھ لینا، یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟ یار! حقیقت میں آرام کس کو کہتے ہیں یہ وہی بتاسکتا ہے، جو رات کی تنہائی میں آرام سے مٹی کے بنے مکان کے چھپر کے نیچے کھٹیے پر لیٹا ہو، اور بارش کی بوندیں کانوں میں رس گھول رہی ہوں۔ حقیت میں سکون وہی ہے اور زندگی کا اصل مزا اس میں ہے کہ ماں باپ، بھائی بہن اور دوست احباب سب آنکھوں کے سامنے ہوں“۔


یہ میرے ایک دوست عارف حبیب کے خیالات ہیں جسے انھوں نے دبئی جانے کے بعد مجھے ایک میل کے ذریعہ بھیجا ہے۔


اپنے دوست کی یہ تحریر پڑھ کے میں اپنے آنسووں کو ضبط نہیں کرسکا اور سچ پوچھیے تو اس وقت میرے کانوں میں میرے ایک قریبی عزیز کا یہ فقرہ گردش کرنے لگا؛ انھوں نے مجھے چھٹی میں مصروفیت کا بہانہ کرکے اپنے گاوں نہ جانے کی مجبوری ظاہر کرنے پر، ہنستے ہوئے یہ کہا تھا، ”میاں! بڑے بڑے طرم خاں گاؤں ہی میں پیدا ہوئے ہیں، بہت اونچے تک اڑے، آخر کار گاوں ہی میں آ کے پناہ لینا پڑی“۔ بزرگ عزیز کا کہا اپنی جگہ بالکل درست تھا؛ صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو آج بھی بہت سے لکھنے والے دہلی، ممبئی میں بھلے رہتے ہوں، اگر ان کے قلم میں گاؤں کا رنگ نہ ہو تو تحریر پھیکی سی لگتی ہے۔


کئی مرتبہ دل بہلانے کے لیے بہت سے کام مجبوری میں کرنا پڑتے ہیں۔ افسوس کہ جو ہماری ذمہ داری کا حصہ ہے، وہی اداکاری کے مندرجات بنتی جا رہی ہے۔ کئی والدین بے چارے اپنے بچوں کی اداکاری سے اپنا جی بہلا کر زندہ رہتے ہیں۔ بوڑھے لوگ شہر میں جا بسے، اس جواں نسل کی واپسی کے لیے اپنے باپ دادا کی جائیداد کے حقوق کا کیا لالچ دیں گے یا طمع پیدا کریں گے؛ یہ نسل تو پہلے ہی سے لاکھوں کے پیکیج میں الجھ گئی ہے؛ جب ان کے والدین پڑھائی لکھائی کے وقت پیسے دے کر، انھیں لاری اڈوں، ریلوے اسٹیشن تک رخصت کرنے جایا کرتے تھے، تو وہ ان کی ہر تکلیف، ہر درد کا خیال رکھتے تھے لیکن وہ سب بھول گئے۔


سینما اور کتابوں میں گاؤں کی ساکھ بھلے ہی گھٹتی بڑھتی رہی ہو، لیکن شہری زندگی جینے والے نوجوانوں کے دل میں گاؤں اور وہاں کی یاد ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ وہ چاہے شہر میں ٹھہرے ہوں یا گاؤں ہی میں‌ جمے ہوئے ہوں۔ یہ تو وقت کی کروٹ اور گردش ہے جو ہم عمر نوجوانوں کے ان زندہ نقوش کو مٹانے میں لگی ہے۔ ناچاروں کو مصروفیت ہی اتنا گھیرے رکھتی ہے کہ انھیں ماں باپ سے ملنے تک کی فرصت نہیں۔

 

ہمارے کئی ساتھی تو ان لہروں کی اٹھان کو ایک نظر دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ چھٹیاں گزارنے گاؤں آئے ایک نوجوان کی کہانی، اکثر گاؤں میں رہنے والے دوجے نوجوان کی کہانی سے میل کھاتی ہے۔ دیہہ میں پلے بڑھے اور اب شہر میں جا ٹھہرے صاحب زادوں کو کون سمجھائے کہ جائے پیدائش کیا ہوتی ہے، جسے ہم بھول کر بہت آگے چلے گئے ہیں۔ کس میں وہ قوت ہے، جو ان راہ بھٹکے دوستوں کو راستہ دکھائے۔


کاش یہ جوان آنکھیں سمجھ پاتیں کہ کیوں گاؤں سے شہر کو واپسی پر ماں باپ روہانسو ہوجاتے ہیں۔ کیوں آخری قدم تک چلتے کچھ باتیں یاد دلاتے رہتے ہیں۔ گاڑی اسٹارٹ کر کے آگے بڑھنے کے واسطے ایکسیلیٹر پر دایاں پاوں رکھے کلچ سے دوسرا پاوں اٹھانے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ فراٹے بھرتے ہوئے آخر یہ نئی پود آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس سفر میں پھر سے ایک بار نہ صرف گاؤں پیچھے چھوٹتا ہے بلکہ احوال زیست، زندہ ماں باپ، رشتے ناتے، دوست احباب سب پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ بوڑھے والدین اپنا سارا وقت، جمع پونجی ان ناچیزوں پر خرچ کرتے ہیں، جنھیں آگے دیکھنا ہوتا ہے۔ نئی نسل بے مطلب کی چیزوں میں الجھ جاتی ہے، اور رشتوں ناتوں تک کی اہمیت سمجھتی ہے نہ اس کا تعاقب مقصود ہوتا ہے۔


عجیب زندگی ہے؛ کبھی کبھی اپنے آپ پر بہت ترس آتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ خود کو کٹہرے میں کھڑا پاتے ہیں۔ خود کو سزا دینے کا سوچتے ہیں، کہ جھٹ سے اس شہر کا کوئی ضروری کام یاد آ جاتا ہے، جس سے دل لگایا تھا۔ نت نئی سیمیناریں آوازہ لگاتی ہیں؛ پریس کانفرنسیں پکارتی ہیں، یا دوستوں کے ساتھ شامیں بتانے کو من للچاتا ہے۔ ان شاموں میں ہم چائے پینے کے علاو کوئی مثبت کام شاید ہی کر پاتے ہوں۔


اپنے ضروری کاموں کی فہرست میں سے وقت نکال کر گاؤں فون کرنا یا کہ پھر گاؤں کو اپنے خیالات کے مرکز میں لانا، کبھی کبھار ہی شامل کر پاتے ہیں۔ اس دوڑ میں ہم بھول جاتے ہیں کہ بوڑھا باپ گہیوں پسانے کے لیے چکی آتا جاتا ہوگا تو کیسے! کیسے چار دن تک نل کے پانی نہ آنے پر پانی کی خاطر دور تک پیدل جاتا ہوگا۔ مہینا ختم ہوتے ہی اگر تنخواہ وقت پرنہ ملی تب بھی دوسروں سے قرض لے کر ہمارے اکاونٹ میں روپے ڈالنے کے لیے رم جھم میں، یا تپتی دھوپ اور ہجوم کی دھکا مکی، سب سہتے ہوئے لمبی قطار میں کھڑا اپنی باری آنے کا انتظار کرتا ہوگا، کہ اولاد کے بنک اکاونٹ میں روپے جمع کرواکے اپنی محبت کی رسید لے۔


گھر میں گیس سلینڈر ختم ہو جانے پر، ماں لکڑی کے چولھے میں دھواں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہونے کے باوجود کھانا بناتی ہوگی۔ لگتا تو یہ ہے کہ ان کے پاس گاوں میں کوئی خاص مصروفیت نہیں ہوتی ہوگی۔ ادھر شہر میں کتنے مصروف ہیں، پاس خرچ کرنے کو اتنا وقت بھی تو نہیں کہ لمحے بھر کو اپنی جائے پیدایش کو یاد کرسکیں۔ باپ کے جھکے کندھوں کا خیال آئے، گندگی میں لت پت رہنے پر بھی بچے کو گلے لگا لینے والی اس ماں سے ٹھیک سے بات کرسکیں۔ جب تک ماں ہے، تب تک تو اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، بعد میں؟ حیف! پہ یہ سانچی بات ہے کہ بعد کی زندگی میں چاہے کتنا بھی سرپیٹ لو، ماتم کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ خاقان خاور کی زبان میں:

جس دن مائیں مر جاتی ہیں

آنکھیں ریت سے بھر جاتی ہیں


یہ ماضی کی بحث کی جگالی نہیں بلکہ ماضی کے احساس کے خیال کا حصہ ہے۔ باپ کی آنکھوں کے سامنے، اپنے کیریئر کو بڑھاوا دیتے بچے، جانے کب باپ کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے کی اصل وجوہ اور بعد کے نتائج جیسے موضوع آج کی تحقیقی مرکز ہوچلے ہیں۔ اس پورے کھیل میں والدین کو فریب دینا سیکھ چکی، نوجوان نسل خود دل ہی دل میں سب جانتی ہے، کہ آگے کا کیا منظر ہے۔ تمام ہتھکنڈوں کے ساتھ وہ شہر میں اپنے جیون کے پل بتاتے ہوئے اکیلے پڑجانے کے خطرے کی طرف بڑھے جا رہے ہوتے ہیں۔ اس پورے دور میں پتا نہیں چلتا، کب اپنے سے بڑوں کو الگ تھلگ کر ڈالتے ہیں۔ ادھر ماں باپ یہ سوچ کر ہی حیران ہوتے ہیں کہ آج ان جوان بچوں کی اپنی ترجیحات کی فہرست میں بہت سی ضروری چیزیں غائب ہوتی جارہی ہیں، مثلا مذہب، اخلاقیات، سچائی، محبت، پیار، خدمت، عزت ایسی تمام پرتیں جلد سے چرم روگ کے اثرات کی طرح ساتھ چھوڑتی جارہی ہیں۔ اصل میں یہ انفیکشن کا دور ہے جس کے اثرات سے ہر رشتہ متاثر ہو چکا ہے۔


آج کی نسل جو نباتات سے بنے گھی پر زندہ ہے۔ جہاں ملاوٹ اور بازاری مصنوعات کی افراط ہے، نظریات کے نام پرآلودگی میں لپٹا علم گنگا سے لبریز ہے۔ بڑا ہی تکلیف دہ وقت ہے۔ یہاں اس فکر سے نوجوان کو سرے سے خارج نہیں کررہے ہیں، بلکہ نوجوان کی توجہ کے طالب ہیں، کہ ایک لمحہ ٹھہر کے غور کرے۔ سہانے سپنوں کی تعبیر کے لیے وہ اپنے آپ کو فراموش کربیٹھا ہے۔ یہ نوجوان اپنے لیے وقت نہیں جٹا پاتا، پھر بھلا وہ اپنے ایک خاندان کے لیے فرصت کے لمحات نکالے، تو جانیے کہ بہت ہے۔ یہاں گاؤں ایک علامت بھی ہوسکتی ہے، جو ماضی سے متعلق ہو۔ گاوں؛ جہاں زندگی کے پروان چڑھتے، تتلاتے بڑھنے کے دن گزرے تھے۔ آج کی نسل اپنے ماضی کو اس حد تک بھلاسکتی ہے، کہ جس میں ماں باپ تک بھی شامل ہو جائیں، یہ سوچنا ہی بھیانک خواب لگتا ہے۔


اب صرف حیلہ تلاشے اوربہانے گڑھے جائیں گے کہ کام، کاروبار، گھر، خاندان دوستی، سفر جیسی سب باتیں۔ ارے دوستو! ان بزرگوں کو ہم ناتجربہ کار کیا بتلانے چلیں، انھوں نے دنیا دیکھی ہے۔ وہ آپ کی آنکھ دیکھے بغیر ہی ماجرا بھانپ لینے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اپنی نظر میں انہیں بے چارے مان لینے والے ہم نوجوان ساتھی، صحیح معنوں میں آج بہت غریب ہوچلے ہیں۔ بھلے وہ سن رسیدہ ہمارے اورآپ کے اس نئے فریب کے قریب قریب شکل والی اصطلاحات سے ان جانے ہوں، مگر زبان کی فریب پن اور چالاکیاں وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ سچ مانیں وہ ہماری اور آپ کی ا ن غلط بیانیوں پر چپ رہ کر سب کچھ برداشت کریں گے۔ ان کے سہنے کی طاقت کا اندازہ ہم نوجوان نسل کو بھلا کہاں ہے۔


میں بھی اسی ذات کا حصہ ہوں، جہاں گنی چنی کچھ نئی باتوں میں پھنسا اپنے والدین کو الجھا آتا ہوں۔ کئی مرتبہ بہانے کم پڑ جاتے ہیں، جب ماں بار بار گاؤں نہیں آ پانے کی وجہ پوچھتی ہیں۔ ہم بری طرح جکڑے، بہت برے پھنسے مانس ہیں۔ نہ آگے بڑھنے کے نہ پیچھے جانے کے۔ یہ طوق خاص طور پر متوسط طبقے کے نوجوانوں کے گلے میں فٹ بیٹھتا ہے، باقی یہ کہ امیر زادوں کا احوال، مجھے نہیں معلوم۔