بدھ، 8 جولائی، 2015

انکاؤنٹر


محمد علم اللہ دہلی
            ہم چار مینار پولس اسٹیشن کے قریب اس کے لوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ برآمدے کے دوسری جانب کا پٹ کھلا ہوا تھا لیکن میری نگاہیں اس کا جائزہ بھی نہ لے پائی تھیں کہ ایک پولس والے نے اس کو بند کر دیا۔ اب کچھ نظر تو نہیں آ رہا تھا لیکن ہم کسی کے چیخنے کی آواز صاف سن سکتے تھے۔
کچھ پوچھ تاچھ چل رہی ہے کیا؟“میں نے قریب ہی کھڑے ایک آفیسر سے پوچھا۔اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا ، کئی افسران چائے پی رہے تھے اور کچھ اخبار بینی میں مصروف تھے۔
            حیدر آباد آئے ہوئے یہ میرا پانچواں مہینہ تھا۔ بہت سارے سینئر صحافیوں سے دوستی ہو گئی تھی۔دہلی چھوڑنے کا غم اب دھیرے دھیرے محو ہو رہا تھا۔نئے لوگ ،نئی زندگی ،نئی راہیں ،سب کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ یوں بھی جب کسی چیز سے سمجھوتہ کرنا پڑے، تو انسان کونہ چاہتے ہوئے بھی بہت ساری چیزوں سے نباہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
            ریڈی میرا بہت عزیز دوست تھا۔ اس سے میری ملاقات حیدر آباد آنے کے بعد ہوئی۔ ہم دونوں ایک ہی محلہ میں رہتے تھے۔ وہ ایک اچھا صحافی تھا اور بہت اچھا لکھتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے  پورے صحافتی حلقہ میں اس کی بڑی عزت تھی۔اعلیٰ افسران سے لے کر نچلی سطح کے لوگوں تک ،سبھی سے اس کے اچھے تعلقات تھے۔ اس نے ایک انجان شہر کی صحافتی دنیا میں تعلقات بنانے میں میری کافی مدد کی ۔ میں اکثر تو نہیں لیکن کبھی کبھی اس کے ساتھ رپورٹنگ کے لئے چلا ہی جا یا کرتا ۔ ہمارے میدان جسے صحافت کی اصطلاح میں بیٹ کہتے ہیں، الگ الگ تھے۔وہ کرائم رپورٹر تھا اور میرے ذمہ اقلیتی امور، ثقافت اور تعلیم کا شعبہ تھا لیکن پھر بھی ہم دونوں بہت سے وقوعے ایک ساتھ ہی  کور کرتے ۔
            آج جب ریڈی نے بتایا کہ وہ وجے سے ملنے جا رہا ہےتو میری بھی خواہش ہوئی کہ اس کے ساتھ چلوں ، وجے انکاؤنٹر اسپشلسٹ تھا۔ اچانک اور نا گہانی حالات میں بھی مورچہ کیسے سنبھالا جائے، دہشت گردوں کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟ ان معاملات سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ایسا اس کے بارے میں کہا جاتا تھا لیکن وہ کچھ لوگوں کے نزدیک بدنام بھی تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جعلی انکاؤنٹر بھی کرتا رہتا ہے۔ ایسے ہی ایک الزام میں وہ پھنس گیا تھا اور اب وہ کل ہی عدالت سے بری ہو کر آیا تھا۔
وجے کے آفس پہنچنے سے پہلے ہی مٹھائی کے دو ڈبے آئے، مجھے بھی ایک بڑے ڈبے سے لڈو پیش کیا گیا  ، اس سے نہ میں نےکچھ لیا اور نہ ہی ریڈی نے۔لڈو دیکھ کر ریڈی کچھ بڑ بڑا یا، وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا، میں نہیں سمجھ سکا  لیکن اس کے چہرے سے نا پسندیدگی جھلک رہی تھی۔کئی ذمہ دار اور با اثر شخصیات کے آنے جانے کا سلسلہ  جاری  تھا۔انتظار کی گھڑیاں بے قراری میں بدلنے لگییں۔میں نے ریڈی پوچھا”کب آئے گاتمہارا وہ آفیسر؟“ابھی میرا سوال ختم ہی ہوا تھا کہ پولس اسٹیشن میں اچانک ہلچل سی پیدا ہوئی۔ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ وجے آن پہنچا تھا۔ پولس والے اسے مبارکباد دے رہے تھےاور وہ مسکراتے ہوئے سب کی مبارکبادیں قبول کرتا رہا تھا۔ ایک نے تیلگو میں کہا:
             ” وجے بہادر! کل سے کام شروع کردو۔
            اس کے بعد ریڈی نے اس کا انٹرویو لینا شروع کیا۔ وجے ریڈی سے اچھی طرح واقف تھا اور شاید دونوں میں کچھ بے تکلفی بھی تھی۔ریڈی سوالات کرتا رہا اور وجے نہایت اطمینان سے اس کے ہر سوال کا جواب دیتا رہا۔اور جب ریڈی اپنا انٹرویو ختم کر چکا تو میں نے بھی ایک سوال پوچھ ہی لیا ۔
  ”وجے جی! آپ کتنی مڈبھیڑوں میں شامل رہے ہیں اور کس طرح کی بندوقیں استعمال کرتے ہیں ؟ “اس نے تھوڑی دیر کچھ سوچا اور پھر فخریہ انداز میں گویا ہوا:
  ” اب تک بیس لوگوں کا انکاو ٔنٹر کر چکا ہوں۔“ پھر اس نے دراز میں سے چمڑے کا ایک پاؤچ نکالا، اسے کھولا اور میرے ہاتھ  میں تھما دیا۔ یہ سکس شوٹر تھا جس کا ہنڈل بھورا اوربیرل اسٹیل کا تھا۔ اس پر ٹائٹن ٹائگر کا لوگو بنا ہوا تھا اور اس کے نیچے 38 اور مایا ایف ایل کندہ تھا۔ اس کے ہینڈل پر داڑھی والا نارس گاڈ بنا ہوا تھا۔ یہ 1950ءکے زمانے کے ہالی ووڈ کی کسی فلم کے سین جیسا نظر آ رہا تھا۔ میں نے بیرول کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر وجے سے پوچھا:
کبھی مڈبھیڑ کے بعد یا کسی کی زندگی لینے کے بعد آپ کو برا لگا ؟
 ” وہ انسان نہیں تھے۔ “اس نے فوراً جواب دیا۔
وہ جانور تھے سب کے سب ۔ ایک زندگی لینے سے پہلے سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مرنے والا انسان نہیں بلکہ ایک بیکار جانور ہے۔۔۔آپ کو پہلے یہ ماننا پڑے گا۔ “اس نے جواب دیا۔
کیا کبھی مڈبھیڑ کے دوران آپ نے خطرہ محسوس کیا؟“میرا اگلا سوال تھا۔میرا سوال سن کر وہ تھوڑی دیر کے لئے رکا۔ پھر کہنے لگا:
  ” کبھی نہیں، طریقہ یہ ہے کہ جوابی کا رروائی سے پہلے نشانہ پر گولی داغ دو۔ میں کوئی بہت اچھا نشانہ باز نہیں ہوں ، پھر بھی مجھے کبھی بھی پچیس فٹ سے زیادہ فاصلے سے گولی چلانی نہیں پڑی۔“میں نے اس سے کہا:
 ”ابھی فاضل جج نے حال ہی میں ایک فیصلہ کی بابت لکھا ہے کہ ملزم نے جدید ہتھیار اے۔کے 56 سے گولی چلائی  جس سے ایک منٹ میں چھ سو راؤنڈ گولیاں چلتی ہیں اور اس کی وار کرنے کی صلاحیت تین سو میٹر تک ہے مگر نہ معاون پولس افسران اور نہ ہی کمانڈر افسرکو ایک خراش تک لگی؟“ابھی میری بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ وجے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگا:
بھیا ہم پولس والے ہیں۔“ریڈی نے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی دس سال کی بیٹی ہے:
  ” کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کے بچے پولس میں شامل ہوں۔“میرا اگلا سوال تھا۔
            اس نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا :
 ”نہیں! “گفتگو کے ساتھ ساتھ میرا صحافیانہ ذہن کچھ اور چیزیں بھی دیکھ رہا تھا ، گفتگو کے دوران مبارکباد دینے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک سینئر انسپکٹر نے کہا کہ وہ مڈبھیڑ میں حصہ لینے والے ٹیم کے ہر رکن کو اکٹھا کریں گے اور جشن منائیں گے ، شراب کا دور چلے گا اور رنڈیاں بھی نچوائیں گے۔میرا سر چکرانے لگا تھا۔ میں بہت جلد یہاں سے نکل جاناچاہتا تھا ،میں نے ریڈی کو ایک ٹہوکادیا:
  ” اب چلو ۔۔۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ “وجے نے مسکراتے ہوئے اجازت دی ۔ ہم اپنی کار میں بیٹھ چکے تھے۔ میرا ذہن نہ جانے کہاں کھویا ہوا تھا اور ریڈی بولے جا رہا تھا۔
 ”تم کرائم رپورٹنگ میں شاید پہلی مرتبہ آئے ہو، یار میں بھی جانتا ہوں، یہ سب غلط ہے لیکن کیا کریں کرنا پڑتا ہے یہ سب۔میں نے ایسے بہت سے واقعات دیکھے اور سنے ہیں۔ اور میں ایک راز کی بات بتاؤں؟ مجھے اُس واقعہ کی ایک پولیس افسر کے ذریعہ سن گن مل گئی تھی۔ یہ میرے لئے بہت بڑی خبر تھی  اور میں چاہتا تو ایک انسان کی جان بچ سکتی تھی  لیکن میں نے اس پر کوئی فالو اپ نہیں کیا۔اس کا قلق آج تک مجھے ہے۔ اس واقعہ کو میں آج بھی نہیں بھول سکتا  ۔ تم سُن رہے ہونا“میں نے نیند میں اونگھتے ہوئے  ہہہ ں  کہا :
وہ کہہ رہا: تھا اب بھی جب کبھی مجھے وہ واقعہ یاد آتا ہے، میرا دل دہل جاتا ہے۔میں نے اس واقعہ کو دیکھا ، بہت قریب سے دیکھا بلکہ اسے تم ایک کامیاب اسٹنگ آپریشن بھی کہہ سکتے ہو۔ میں نے اس دن اُس آدمی کو زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تھا۔اسے مڈبھیڑ کہنا غلط ہوگا۔ وہ جان بوجھ کر ایک قتل کا معاملہ تھا، پولس اس کو وقت سے پہلے ہی نمٹا دینا چاہتی تھی۔اس بے چارے کو اس کے کھڑے ہونے کی جگہ دکھا دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہاں سے ہلنا مت۔ تمہیں گولی لگ سکتی ہے۔“ بولتے بولتے ریڈی جذباتی ہو گیا تھا۔ لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی:اس دن رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے ۔پولس کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچے ۔ اس آدمی کو پتہ تھا کیا ہونے والا ہے۔ وہ ڈر سے تھر تھر کانپ رہا تھااور اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔“
             میرے بچے ہیں سر! پلیز مجھے بخش دیں ! میں کچھ بھی کروں گا۔ میں انفارمر بن جاؤں گا۔“ جب وہ اپنی زندگی مانگ رہا تھا تو ایک پولس والے نے اپنی بندوق اٹھائی اور گولی چلانا شروع کر دیا ۔ الگ الگ زاویے سے الگ الگ شاٹ، ایک منظم سازش کے تحت۔ا س طرح ایک پولس والا ایک مخصوص جگہ پر کھڑا ہوگا اور دوسرا دوسری جگہ پر۔ اس بات پر سمجھوتہ ہو چکا تھااور اس شخص پر لگ بھگ چھ سات راؤنڈ گولیاں چلائی گئیں۔ گولی چلاتے ہوئے وہ اسے گالیاں دے رہے تھے۔ ان پولس والوں کے چہرے پر کوئی افسوس نہیں تھا۔ جب آدمی زمین پر گر گیا تو انھوں نے ساتھ لائے رومال میں لپٹے ریوالور کو مردہ آدمی کے ہاتھ میں رکھ کر اس سے دو گولیاں داغ دیں۔ جو بھی عام لوگ جائے وقوعہ پر تھے پہلے ہی پولس کی آواز سن کر بھاگ گئے تھے۔ پولس نے پنیتالیس منٹ تک انتظار کیا کہ اس میں زندگی کی  رمق بھی باقی نہ رہے، پھر اسے اسپتال لے کر گئے۔ میں اس رات تین بجے تک نہیں سو سکا۔ اور تین دن کھانا نہیں کھایا۔ میں نے پہلی مرتبہ کسی کو اس طرح مارے جاتے ہوئے دیکھا تھا:”اس واقعہ کے بعد سے پولس سے میرے تعلقات بدل گئے۔میں ان سے نفرت کرتا ہوں۔ یہ سب  حرامی ہیں !کتے ہیں سالے !اگر مجبوری نہ ہوتی تو کب کا اس پیشہ سے توبہ کر لیتا۔ “گاڑی ایک جھٹکے سے رکی ، مگر ریڈی خاموش نہیں ہوا تھا ۔
 ” مجھے افسوس ہے بھائی میں نے اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ ایک سطر بھی نہیں۔ پولس مڈبھیڑ کے بارے میں جو بھی خبریں چھپتی ہیں وہ بکواس ہوتی ہیں۔ آج کا انٹرویو بھی جھوٹا تھا۔ ہم صحافی نہیں اسٹینو گرافر ہیں اسٹینو گرافر! ہم پولس کے منشی ہیں۔“ میں نے ریڈی کی جانب دیکھا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں اور چہرہ کسی پتھر کی طرح بے جان نظر آ رہا تھا۔
نوٹ : یہ افسانہ سہ ماہی ادبی جریدہ  ثالث  “ مونگیر میں شائع ہو چکا ہے ۔

2 تبصرہ جات:

Ammar Zia نے لکھا ہے کہ

افسوس ناک سچائی!
عمدہ تحریر!

Mohammad نے لکھا ہے کہ

بہت شکریہ بھائی جان ۔
علم