ہفتہ، 17 دسمبر، 2011

موروثی اقتدار کے ٹھیکیدار نوجوان قیادت سے برہم کیوں



موروثی اقتدار کے ٹھیکیدار نوجوان قیادت سے برہم کیوں  

  علم اللہ اصلاحی
ادھر کئی دنوں سے یہ خبر عام ہے کہ ضلع مظفر نگر سے منتخب بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمینٹ مسٹر قادر رانا تحریر شدہ ھلف نامہ نہیں پڑھ سکے۔حالانکہ ھلف لینے کے بعد مسٹر رانا نے رجسٹر پر اپنا دستختط خود کیا ۔یہ تو غنیمت ہے کہ کم از کم انھوں نے دستخط تو خود سے کئے ورنہ اس حمام میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو دستخت تک کرنا نہیں جانتے ۔یقینا اس خبر سے ملک کی موجودہ صورتحال کا پتہ چلتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کے قائد اور رہنما کی اوسطا خواندگی کی ستح کیا ہے۔آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو شخص دیکھ کر بھی کوئی تحریر پڑھنے پر قادر نہ ہو وہ عوام کی کیا رہنمائی کرے گا اور ملک کے لئے کتنا مفید ہوگا ۔یہ خبر پڑھتے ہی مجھے مشہور صحافی انیل چمڑیا کے الفاظ یاد آنے لگے جو انھون نے ابھی کچھ ہی دنون پہلے کہا تھا۔انھوں نے ملک کی موجودہ صورتحال اور نئے سیاسی قائدین اور ان کی شنع و قبیح حرکتوں کا تزکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت سیاست میں انتہائی گندے ،انپڑھ اور جاہل لوگ آرہے ہیں جسکی وجہ سے ملک کا سیا سی نظام درہم برہم بلکہ نیست و نابود ہوکر رہ گیا ہے۔انھوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا تھا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔


اگر مسٹر چمڑیا کی ان باتوں پر گور کیا جائے تو ان کی باتیں صد فی صد صحیح معلوم ہوتی ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فی زمانہ سیاست میں جاہل ہی نہیں بلکہ غیر شفاف پس منظر اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس سلسلے میں اگر پچھلے برسوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1970میں ستر سے زائد اراکین لوک سبھا میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے تھے اور چودہویں لوک سبھا میں ان کی تعداد بڑھ کر 132ہو گئی تھی ان وجوہات کے سبب سیاست کا تقدس لوگوں کے ذہنوں سے مٹتا جا رہا ہے اور سیاست و سیاسی لوگوں سے عوام کا اعتبار اتھ رہا ہے۔


اب اگر ان اسباب کا پتہ لگایا جائے کہ ایسے لوگوں کو سیاست میں در آنے کا موقع ہی کیوں ملتا ہے تو کئی باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ ہمارے ملک سے تعلیم کا رجحان رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے ۔دوسری بڑی وجہ یہ کہ یونیورسٹیوں سے طلباءیونینوں کا نظام ختم کیا جا رہا ہے جیسا کہ بعض دانشوروں نے کہا بھی ہے کہ یہ ایسے پہلے لوک سبھا انتخا بات ہیں جب یونیورسیٹیوں میں یونین یا تو ہے ہی نہیں یا اس کے ڈھانچے ختم کر دئے گئے ہین ۔جن کے لئے بڑی حد تک ہماری حکومت ذمہ دار ہے اب ایسی صورت میں ہم کہاں سے اور کس طرح پدھے لکھے لوگاں کو لائیں۔


اگر اس سلسلے میں ملک کی تین نمائندہ اور سینٹرل یونیور سٹیوں کی حالت پر غور کرین تو بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ کسمپرسی کی حالت میں ہی سہی لیکن جواہر لال نہرو اور دہلی یونیورسیٹی میں ابھی یونینوں کا وجود ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جے،این ،یو کے طلبہ سال بھر کسی نہ کسی مسئلہکو لیکر پریشان رہے ۔جب انھوں نے انصاف اور حقوق کی بات کی تو ان کے خلاف ظالمانہ روش اختیار کی گئی حتی کہ یونین سے منسلک کئی طلباءکو بلا جرم یونیورسیٹی سے برطرف بھی بھی کر دیا گیا ۔اگرچہ انتظامیہ کو طلباءکے احتجاج اور اپنی غلطی کے اعتراف کے بعد مخرج طلبہ کو دوبارہ واپس لینا پڑا۔بہرحال اس میں طلباءاور اس کی تعلیم کا جو نقصان ہوا اس کا ازالہ کر پانا بہرحال نا ممکن ہے ۔اسی طرح دی یو یونین کی بھی بہت اچھی حالت نہیں ہے آئے دن کسی نہ کسی معاملہ پر یونین کے ارکا ن کو ہراساں کیا جاتا ہے ان کے حقوق پر شب خوں مارا جاتا ہے جس کی خبریں ہم آئے دن ذرائع ابلاغ کے توسط سے دیکھتے ،سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں ۔اب ایسی صورت میں ستم زدہ طلبہ اپنی آواز اٹھاتے ہیں تو ارباب اقتدار کو ان کی یہ روش گراں گزرتی ہے اور طلبہ کے ارادوں میں انھیں بال نظر آتا ہے۔ٹھیک اسیطرح بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور سنگین صورتحال جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہے۔حالانکہ یہاں یونین نام کی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔بلکہ اب تو جامعہ میں طلبہ کے حقوق کا بحران ایک سنگین رخ اختیار کرگیا ہے۔جسکی زندہ مثال ابھی حال ہی میں جامعہ انکاونٹر کے بعد شک کی بنیاد پر دہلی بم بلاسٹ کے مجرم کی حیثیت سے گرفتار کئے گئے ملزم ضیاءالرحمان کی ہے جسکے خلاف ابھی جرم ثابت بھی نہیں ہوا ہے اور جامعہ انتظامیہ نے اسے مطلع کئے بغیر یونیورسیٹی سے نکال دیا اور اسے ہال ٹکٹ نہ دیتے ہوئے امتحان سے بھی محروم کر دیا ہے انتظامیہ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ جامعہ کیمپس میں اسکے داخلہ پر بھی پابندی عائد کر دی )اس کا نوٹس ہائی کورٹ نے بھی لیا ہے ۔ انتظامیہ نے تو طلبہ یونین کا وجود ختم کرکے خاموشی اختیار کر لی ہے مگر طلبہ پریشان ہیں کہاب وہ اپنی شکایات لیکر کہاں جائیں کیا کریںا انتظامیہ کسی آمر حکمراں کی طرح جو چاہتی ہے کرتی ہے ۔انھیں طلبہ کے احساسات کا قطعا احساس نہیں کہ آیا یہ طلبہ کے حق میں مفید بھی ہے ۔حالانکہ یونین کہ نام پر یہاں بھی طلبہ سے فیس لیجاتی ہے اور یہ فیس 2006میں جامعہ اسٹودنٹ یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد بھی آج تک لی جا رہی ہے اگر10000دس ہزار طلبہ پر مشتمل فی طالبعلم 50روپئے کے حساب سے اس رقم کو جوڑا جائے تو رقریبا ایک کروڑ روپئے بنتے ہیں واضح رھے کہ یہ تخمینہ صرف 2007اور 2008کا ہے ۔اور اس کا حساب لینے والا کوئی نہیں کہ یونیورسیٹی غصب کی گئی اس رقم کا استعمال کہاں کر رہی ہے۔


یہ تو نمائندہ یونیور سٹیون کا حال ہے۔آپ ملک بھر میں کسی بھی یونیورسٹیوں پر نظر دالیے تو حالات اس سے بہتر نہیں بلکہ ابتر ہی نظر آئیں گے۔اب ایسی صورت میں ملک خزاں رسیدہ اور گھہن آلود ہوتا ہے تو اس کا زمہ دار کون ہوگا---؟دراصل یونیورسٹیوں میں طلباءیونین کا خاتمہ ایک منظم سازش کا نتیجہ ہےجیسا کہ بعض مبصرین نے کہا بھی ہے کہ تمام جماعتیں نوجوان قیادت اور سیاست میں ان کی حصہ داری سے برہم ہیں کیوںکہ اس سے ان کی موروثی اقتدار پر شب خوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ہندوستان کیہ یونیورسٹیوں میں انتہائی محدود وسائل کے ساتھ تحصیل علم میں مشغول ہونہار نوجوانوں کو سیاست سے روکنے کی یہ کوشس دراصل اپنے اپنے جگر پاروں کے نام ملک کا بیع نامہ کرنے کی سعی نا مشکور ہے ۔کوئی نہیں چاہتا کہ اخلیش یاد، اجیت چودھری،ندیم جاوید سچن پایلٹ،عمر عبد اللہ،عبدالحفیظ گاندھی، جیوتی ادتیہ سندھیہ،پریکا و راہل گاندھی کے سامنے کوئی مضبوط متبادل کھڑا ہو جائے۔


اس سے مفر نہیں کہ یونیورسٹی سیاست سے نکل کر ہی ملک کے اکابر سیاستداں نے ملک کی باگ ڈور بطرز احسن نبھائی ہے خواہ وہ جواہر لال نہرو ہوں ڈاخٹر ذاکر حسین یا پھر لالو۔منموہن، امر پرنب یا چدمرم ۔یونیورسٹیوں کی علمی فضا میں پروان چڑھنے والا سیاسی شعور یقینا اتنا غلیظ نہیں ہوگا جتنا موجودہ لیڈروں کا ہے جوملک کو اپنی غلامی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دینا یا فروخت کر دینا چاہتے ہیں۔