بدھ، 11 مئی، 2016

آج کی ڈائری



محمد علم اللہ
کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا تھا ۔
قریب والے اے ٹی ایم میں پیسے نہیں تھے ۔
بھوک بہت شدت کی لگی تھی ۔
کل سوچا تھا آفس میں کسی سے قرض لے لوں گا ، مگر کسی سے مانگنے کی ہمت ہی نہ ہوئی ۔
حسب معمول صبح واپس لوٹا تو نیند اتنی تیز آ رہی تھی کہ بس آتے ہی سو گیا ۔شام چھہ بجے آنکھ کھلی تو قریبی اے ٹی ایم میں پیسے نکالنے کے لئے گیا ، مگر اتفاق سے آج بھی وہا ں پیسے نہیں تھے ، بڑا غصہ آیا ۔
کمرے میں واپس آ کر رات کا انتظار کرنے لگا کہ اب آفس کے کینٹین میں ہی کھا لیں گے ، کیٹین میں کوپن سسٹم ہےاور کوپن میں ابھی کافی پیسے پڑے ہیں ، مگر گیارہ بجے رات تک انتظار کرنا بہت مشکل تھا ، بھوک کی شدت اور بھی بڑھ رہی تھی ، خود کو کوسنے لگا کہ پانی نہ پیتا تو نفلی روزہ ہی رکھ لیتا ، بے چینی سے، جیب ، پرس ، بیگ سبھی ٹٹولا مگر نہ تو پیسے ملے اور نہ ہی کچھ کھانے کا سامان ، دل بہلانے کے لئے وشنو پر بھاکر کی آوارہ مسیحا لیکر بیٹھ گیا ، مگر جب پیٹ میں کچھ نہ ہوتو مطالعہ میں کہاں جی لگتا ہے ۔اچانک یاد آیا گھر میں جب چھوٹی بہن کپڑے دھلتی تو شام کو پیسے لوٹاتی ہوئی کہتی بھیا یہ لیجئے ! آپ کے پاکٹ میں پڑا تھا ، اور میں پیار سے کہتا تم رکھ لو تو وہ کتنی خوش ہوتی تھی ۔
اس خیال کے آتے ہی میں نے اپنے اتارے ہوئے کپڑے جسے کئی ہفتہ سے دھلنے کی سوچ رہا تھا ، ٹٹولنا شروع کیا ،تو ایک پرانی جینس میں سے سو روپئے کا نوٹ نکلا جسے میں نے پہننا بھی چھوڑ دیا تھا ، اس سور روپئے کے نوٹ کو پاکر اتنی خوشی ہوئی کہ پورے مہینے کی تنخواہ پا کر بھی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی ، فرط جذبات سے میں نے نوٹ کو پیشانی سے لگایا اور چوم لیا ۔پھر دو رکعت شکرانہ نماز پڑھی ۔باہر نکلا جوس پیا، سموسے کھائے ، چائے پی اور پھر روم واپس آ گیا۔
رہے نام باقی اللہ کا

۔۔۔مزید

आज की डायरी


मुहम्मद अलामुल्लाह
खाने-पीने का सामान खत्म हो गया था।
करीब वाले एटीएम में पैसे नहीं थे।
भूख बहुत तेज़ लगी थी।
कल ही सोचा था कार्यालय में किसी से ऋण ले लूँगा, लेकिन किसी से मांगने की हिम्मत ही नहीं हुई।
अनुकूलन दिनचर्या नाईट शिफ्ट कर के सुबह लौटा तो नींद इतनी तेज आ रही थी कि बस आते ही सो गया .शाम छह बजे आंख खुली तो पास के एटीएम में पैसे निकालने के लिए गया, लेकिन संयोग से आज भी वहां पैसे नहीं थे, बड़ा गुस्सा आया ।
कमरे में वापस आकर रात का इंतजार करने लगा कि अब कार्यालय के कैंटीन में ही खा लेंगे, कैंटीन में कार्ड प्रणाली है और कार्ड में काफी पैसे पड़े हैं, लेकिन ग्यारह बजे रात तक इंतजार करना बहुत मुश्किल था, भूख की तीव्रता और भी बढ़ रही थी, खुद को कोसने लगा कि पानी न पीता तो नफिल रोज़ा ही रख लेता, बेचैनी से, जेब, पर्स, बैग सभी टटोला मगर न तो पैसे मिले और न ही कुछ खाने का सामान, दिल बहलाने के लिए विष्णु प्रभाकर की किताब आवारा मसीहा लेकर बैठ गया, लेकिन जब पेट में कुछ न हो तो अध्ययन में कहाँ जी लगता है।
अचानक ख्याल आया घर में जब छोटी बहन कपड़े धुलती थी तो अक्सर शाम को पैसे लौटाने हुई कहती भैया ये लीजिए! आपके जेब में पड़ा था, और मैं प्यार से कहता तुम रख लो तो वह कितनी खुश होती थी। मैं सोचने लगा कुछ ऐसे ही चमत्कार हो जाता।
यह सोचते हुए मैं अपने उतारे हुए कपड़े जिसे कई सप्ताह से धुलने की सोच रहा था, टटोलना शुरू कर दया ,एक , दो , तीन सभी देख डाले। ना उम्मीदि के साथ एक पुरानी जींस में हाथ डाला काफी दिनों से उसे पहना भी नहीं था ! क्या देखता हूँ पिछली वाली जेब में सौ रुपए पडा है, उस सौ रुपये के नोट को पाकर मुझे इतनी ख़ुशी हुई के उसे बयान नहीं कर सकता सही बात तो यह है की पूरे महीने के वेतन पाकर भी इतनी खुशी कभी नहीं हुई, फरते जज़्बात से मैं ने उस नोट को माथे से लगाया और चूम लिया। फिर दो रकअत शुक्राना नमाज़ पढ़ी,बाहर निकला जूस पिया, समोसे खाए, चाय पी और फिर रूम वापस आ गया।
रहे नाम बाकी अल्लाह का !

۔۔۔مزید

منگل، 10 مئی، 2016

سو لفظوں کی کہانی

عکس بند 
محمد علم اللہ 
سینکڑوں ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
 دھماکے کے دوسرے روز بھی شہر کے باسی بے حد پریشان تھے۔
 لیڈران ، تفتیشی ایجنسیاں ، صحافی، چینلز اب بھی جائے حادثہ پر اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔
 ایک بچی ان سب سے بے خبر، اپنی پیاری گڑیا کوپکڑے ۔ آگے بڑھی چلی جا رہی تھی۔ میری نظر بچی پر پڑی۔
 لپکا ’’ منی !ادھر کہاں جا رہی ہو؟‘‘ 
’’اُدھل میلا کھلونا ہے ‘‘ 
’’ڈر نہیں لگتا؟‘‘ 
’’میلی گلیا ہے تو ساتھ میں۔‘‘
 بچی کی معصومیت مجھے ڈھیر کر گئی ، خیال ہی نہ رہا ، بچی کا عکس ہی محفوظ کرلیتا ۔

۔۔۔مزید

ملی تنظیموں کا رویہ

 محمد علم اللہ ۔ حیدرآباد ۔

میرا اپنا خیال یہی ہے کہ ملی تنظیموں کو زیادہ تر ملی مسائل سے ہی سروکار ہوتا ہے ، وہ ملکی ،عمومی یا جمہوری سطح پر مسائل سے چشم پوشی برتتی ہیں ۔کلیہ میں استثنا ہوتا ہے چند ایک تنظیمیں اگر کچھ کرتی ہونگی تو میں اس کا قسم نہیں کھا سکتا ۔ مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ عمومی مسائل کے حل میں ہماری تنظیمیں کوری ثابت ہوتی ہیں ،جس کی چند ایک مثالیں حیدرآباد میں دلت طالب علم روہت ویمولا کی خود کشی کے بعد پیدا شدہ صورتحال اور اس کے بعد کے حالات۔دہلی میں شری شری شنکر کا آرٹ پروگرام کے نام پر بڑی تعداد میں درختوں کی کٹائی اس کے بعد ہنگامہ آرائی اور عدالت کی دخل اندازی ۔یہ محض حال کے چند واقعات ہیں تھوڑاآگے بڑھیں تو بد عنوانی کے مسئلہ پر کچھ سال قبل ہنگامہ آرائی جس کے بعد کیجری وال کی حکومت بنی ، ہماری تنظیموں نے کیا رول ادا کیا ۔ تھوڑا اور آگے بڑھئے نویڈامیں نربھیا ریپ معاملہ پر بین الاقوامی سطح پر لوگوں نے چیخ پکار مچائی جس کے بعد قانون تک بنانے پر حکومت مجبور ہوئی یہ تنظیمیں سوتی رہیں ۔

۔۔۔مزید

ریشارد کاپوشینسکی

آج ہمارے ایک بزرگوار نے ریشارد کاپوشینسکی سے متعارف کرایا ، حیرت ہے کہ اس قدر عظیم لکھاری سے میں ان تک کیسے لا علم کیسے رہا ، انٹرنیٹ میں سرچ کیا تو کافی کچھ ملا ، ان کا پہلا کوٹیشن گوگل نے جو دکھایا وہ یہ تھا ۔
When man meets an obstacle he can't destroy, he destroys himself.
Our salvation is in striving to achieve what we know we'll never achieve.
Be careful: they have arms, and no alternatives
Kapuściński Ryszard
یہ لیجئے اس کا اردو ترجمہ :
جب آدمی کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں ، تو وہ رکاوٹیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ، بلکہ انسان اگر پیچھے ہٹتا ہے تو خود ہی وہ اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے ۔ ہماری نجات یا کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اس کو پانے کے لئے جد و جہد کریں ۔ ہوشیار رہیں کہ یہی ہمارا اسلحہ ہے اور محنت و تگ و دو کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
ریشارد کاپوشینسکی

۔۔۔مزید

اردو اخبارات اک نوحہ

اس سے قطع نظر کہ واقعی یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے ، لیکن اس سے کہیں زیادہ افسوس ناک اردو اخبارات کا ایسا رویہ ہے ، جو جانے انجانے میں فرقہ پرستی کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں ۔ یہ واقعی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ اردو اخبارات معروضی انداز میں بات کرنے ے بجائے خبروں کو بھی زبردستی کلمہ پڑھانے پڑھانے پر مصر نظر آتے ہیں ، ہندی کے بعض اخبارات جس میں دینک جاگرن اور نوبھارت ٹائمز سہر فہرست ہیں کا رویہ بھی اسی قسم کا ہے ، جو بہر حال جمہوریت کے چوتھے ستون کے اصولوں کے منافی اور اس کو زک پہنچانے والا ہے ۔


۔۔۔مزید

سورج نکلا تو

دلت فکشن....11
سورج نکلا تو
کہانی : سدا بھارگو
ترجمہ : محمد علم اللہ
رانچی . جھارکھنڈ . انڈیا

-------
وہ دلت تھی، اس پر بھی بیچاری عورت ذات! پھر تو دوگنی دلت۔ آدمی گھر بیٹھ اس کے سینے پر مونگ دلتا اور باہر رات کے سناٹے میں اس کی چیخ ہوا می تحلیل ہو جاتی ۔ سننے والوں کو سکون ہی ملتا، دلت جو ٹھہری!
پر ماں بھی تو تھی وہ، بس رکھ دیا تن من گروی۔ ایک ہی آس، بیٹا پڑھ جائے تو شاید بڑھاپے کا سہارا ہو ۔ آٹھویں پاس بیٹا اس دن چہکتے ہوئے آیا۔ بولا! ماں، ماں! دیکھ تو اس اخبار میں۔ حکومت ہمارا کتنا خیال رکھ رہی ہے۔ اب سے ہماری زمین، ہمارے درخت کوئی نہیں چھينےگا۔ ہم جنگل کے بادشاہ تھے اور رہیں گے۔
چپ بھی رہ۔ یہ باتیں پڑھنے اور سننے میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ یہ گمراہ کرنے کی اچھی سازش ہے۔ ہوائی باتوں کو کاغذ پر اتارنے میں بھی کافی وقت لگتا ہے۔
ٹھيك ہے، كڑوے گھونٹ پینے کی تو عادت ہے۔ اب صبر کے گھونٹ پی کر پیٹ بھر لیں گے۔
اتنے برس بیت گئے آزادی کو، کسی نے ہماری سدھ لی؟
لیکن ماں پینسٹھ سال کے بعد ہمارا سورج تو نکلا۔ اسکی روشنی پھیلنے میں وقت تو لگے گا۔
اپنے بیٹے کے چہرے پر کھلی امیدوں کی پنکھڑیوں کو وہ مرجھاتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی تھی، اس وجہ سے ایک ماں زبردستی اپنے ہونٹوں پر برکھا لانے کی کوشش کرنے لگی۔
 

۔۔۔مزید

مسلم مجلس مشاورت ، ایک مختصر تاریخ

میری کتاب(مسلم مجلس مشاورت ، ایک مختصر تاریخ : از محمد علم اللہ ) پر ماہنامہ’’ معارف ‘‘ اعظم گڈھ کا تبصرہ بہرحال میرے لئے سند کا درجہ رکھتا ہے ۔ تبصرہ نگار کا نام نہیں دیا ہے ، لیکن تبصرہ کے نیچے ع ص لکھا ہے ، یعنی محترم جناب عمیر الصدیق ندوی صاحب نے یہ تبصرہ کیا ہے ۔ میری کبھی ان سے نہ بات ہوئی اور نہ ملاقات ،مگر عمر کے تعلق سے ان کے اندازہ سے مجھے حیرانی ہوئی ۔بہرحال میں ان کا شکر گذار ہوں کہ انھوں نے کتاب پڑھی اور تبصرہ بھی کیا ۔ جزاکم اللہ احسن ۔

\

۔۔۔مزید

فن کو سنوارنے کا فن

آج میں آپ کو دو مزید باتیں بتاتا ہوں ۔ ستم طریفی ۔ آپ اس کے اثر میں نہ آئیں ۔ خصوصا اس وقت تخلیقی لمحات میں نہ ہوں ۔ ہاں جب آپ اپنے تخلیقی لمحات میں ہوں تو اسے زندگی پر گرفت حاصل کرنے کے ایک ذریعہ طور پرلیں ، اگر اسے صدق دلی سے استعمال کیا جائے تو یہ ایک  مثبت رویہ ہے اور اس کے استعمال پر کسی قسم کے خلجان میں نہیں پڑنا چاہئے ۔ لیکن اگر آپ  کو لگے کہ کچھ زیادہ ہی اس میں الجھن کا شکار ہو رہے ہیں تو پھر سنجیدہ چیزوں کی جانب  متوجہ ہوں جس کے سامنے یہ انتہائی حقیر اور بے بس  شئے ہے ۔ چیزوں کی گہرائی تک پہنچیں ، اور جب اس طرح آپ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگیں تو اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا یہ ستم ظریفانہ رویہ آپ کی کوئی فطری ضرورت ہے ۔ اس لئے کہ سنجیدہ باتوں کے زیر اثر یا تو یہ اگر محض اتفاقی ہے آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور یا اگر واقعی آپ کا فطری رویہ ہے تو یہ ایک مضبوط آلہ کار بن جائے گی اور ان اجزا میں شامل ہو جائے گی جن سے آپ اپنے فن کو سنوار سکتے ہیں ۔

Today I would like to tell you just two more things:
Irony: Don't let yourself be controlled by it, especially during uncreative moments. When you are fully creative, try to use it, as one more way to take hold of fife. Used purely, it too is pure, and one needn't be ashamed of it; but if you feel yourself becoming too familiar with it, if you are afraid of this growing familiarity, then turn to great and serious objects, in front of which it becomes small and helpless. Search into the depths of Things: there, irony never descends and when you arrive at the edge of greatness, find out whether this way of perceiving the world arises from a necessity of your being. For under the influence of serious Things it will either fall away from you (if it is something accidental), or else (if it is really innate and belongs to you) it will grow strong, and become a serious tool and take its place among the instruments which you can form your art with.
http://www.carrothers.com/rilke2.htm

۔۔۔مزید

ایک استاد کا اپنے شاگرد کو نصیحت

رائنر ماریہ رلکے کے خطوط کا مطالعہ جاری ہے ۔رلکے  کی پیدائش 4 ستمبر 1875 میں پراگ میں ہوئی  تھی ۔  رلكے کو جرمن زبان کے معروف  شاعراور ادیب  کے طور پرجاناجاتا ہے۔ جرمن اور فرانسیسی زبانوں کےماہر رلكے نے جدید زندگی کی پیچیدگیوں کی عکاسی  اپنے مخصوص انداز میں خوبصورتی سے پیش کی ہے ۔ چند اقتباسات کا ترجمہ ملاحظہ فر مائیں  ۔
علم

ادبی  تنقید  کا جہاں تک  ممکن ہو کم  مطالعہ کریں  ۔ ایسی چیزیں تو یک رخی  ہوتی ہیں یا زندگی سے عاری اور پتھر کی طرح بے جان  یا پھر  محض لفظوں کی پوٹلی  جن میں آج ایک نظریہ حاوی ہوتا ہے کل  کوئی  اور نظریہ جگہ لے لے گا  ۔ فن پارے انتہائی انفرادیت کے حامل ہوتے ہیں اور تنقید ان کو سمجھنے کا محض ایک ادنی ذریعہ ہے ۔ صرف محبت انھیں سمجھ سکتی ہے،  ان کی گرفت کر سکتی ہے اور ان کے ساتھ انصاف کر سکتی ہے ۔ ہر دلیل ، ہرحجت اور ہر  بحث کے متعلق آپ صرف خود اپنے آپ کو اور اپنے احساس اور ضمر  کو درست  تصور کریں ۔  اگر آپ پر غلطی واضح ہو جائے تو یہ آپ کی باطنی زندگی کو فروغ دینے کے علاوہ آپ کو نئی بصیرتیں عطا کرے گا ۔ اپنے نظریات کو اطمینان اور سکون کے ساتھ فروغ پانےدیجئے جو ہر ارتقائی عمل کی طرح دل کی گہرائیوں سے وا ہوتے ہیں ۔ اور جنھیں نہ زبردستی بڑھاوا دیا جا سکتا ہے  اور نہ ہی نہ کسی اور ذریعہ سے اس میں افزودگی پیدا کی جا سکتی ہے ۔  ہر عمل ایک تخلیقی عمل ہے، ولادت ہے ۔
احساس کے ہر  نقش اور  عنصر  کی تشکیل کرنا اسے  پایہ تکمیل کو پہنچاتا ہے ۔ وہ جو پوشیدہ ہے ، جو ناقابل بیان  ہے شعور سے پرے ہے ، جس کا ادراک نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی تخلیق کا صبر سے عاجزی کے ساتھ انتظار کرنا ، واضح کرنا ، یہی ایک فنکار کی زندگی ہے کہ تخلیقی عمل کے ذریعہ وہ حقیقت کا ادراک کرتا ہے ۔
یہ گھڑیوں  کو ناپنے  کا معاملہ نہیں ہے ۔  یہاں وقت کوئی معنی نہیں رکھتا  ۔ایک فنکار کے لئے  دس برس کوئی چیز نہیں ۔ ایک فنکار بننے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اس کو حساب کتاب  میں مقید کر دیا جائے ۔ مگر ہاں  ایک درخت کی طرحاسے پھلنے پھولنے کا موقع  دیناچاہئے اس کو  زبردستی بڑھانے کی کوشش  نہیں کرنی چاہئے ۔بلکہ ایسا بننا  بہار کے طوفانوں کو بھی وہ اعتماد  کے ساتھ جھیل سکے ، اسے اس بات کا  خوف نہ ستائے  کہ  اس کے بعد موسم گرما آ جائے  گا ۔اسے تو آنا ہی ہے ، مگر صرف اس کے لئے جس  کے اندر  صبر اور  تحمل کا مادہ  ہو ۔ جوایسے بے نیازی سے ، اطمینان اور  وسعت کے ساتھ ہو جیسے کہ ہمیشگی  اس کے سامنے ہو ۔ میں روزانہ اپنی زندگی میں  اس کو سیکھتا ہوں ۔ درد اور کسک کے ساتھ اس کو  سیکھتا ہوں  اور مجھے خوشی ہے  کہ صبرایک بہت بڑی نعمت  ہے ۔
 Read as little as possible of literary criticism. Such things are either partisan opinions, which have become petrified and meaningless, hardened and empty of life, or else they are clever word-games, in which one view wins , and tomorrow the opposite view. Works of art are of an infinite solitude, and no means of approach is so useless as criticism. Only love can touch and hold them and be fair to them. Always trust yourself and your own feeling, as opposed to argumentation, discussions, or introductions of that sort; if it turns out that you are wrong, then the natural growth of your inner life will eventually guide you to other insights. Allow your judgments their own silent, undisturbed development, which, like all progress, must come from deep within and cannot be forced or hastened. Everything is gestation and then birthing. To let each impression and each embryo of a feeling come to completion, entirely in itself, in the dark, in the unsayable, the unconscious, beyond the reach of one's own understanding, and with deep humility and patience to wait for the hour when a new clarity is born: this alone is what it means to live as an artist: in understanding as in creating.

     In this there is no measuring with time, a year doesn’t matter, and ten years are nothing. Being an artist means: not numbering and counting, but ripening like a tree, which doesn’t force its sap, and stands confidently in the storms of spring, not afraid that afterward summer may not come. It does come. But it comes only to those who are patient, who are there as if eternity lay before them, so unconcernedly silent and vast. I learn it every day of my life, learn it with pain I am grateful for: patience is everything!
http://www.carrothers.com/rilke3.htm

۔۔۔مزید

ایک واقعہ


ایک واقعہ
محمد علم اللہ ۔ حیدر آباد
 آج مولانا احتشام الدین اصلاحی کا ان کے آبائی گاوں منڈیا ر میں انتقال ہوگیا ۔ مولا نا مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ میں استاد جیسے جلیل القدر عہدے پر فائز تھے ۔ انھوں نے کم و بیش تیس سال مدر سۃ الاصلاح میں صدارت کے فرائض انجام دئے ، اس درمیان انھوں نے کیا خدمات انجام دیں ؟ مدرسہ کو کہاں سے کہاں پہنچایا ؟ کیا تبدیلیاں کیں ؟ کس حد تک بانیان مدرسہ کے خواب کو شر مندہ تعبیر کیا یہ بہر حال ایک تحقیق کا موضوع ہے ۔ آج مولانا کے انتقال کے بعد ان کے اوپر کچھ لکھنے کا سوچا تو ایک واقعہ ذہن میں گھوم گیا ، اور اس کا پورا پس منظر کسی فلم کی طرح ذہن کے اسکرین پر چلنے لگا ۔ ہم غالبا عربی چہارم میں تھے مولانا ایوب اصلاحی صاحب قران پڑھا رہے تھے ، بغل والے کلا س میں مولانا احتشام صاحب عربی نحو و ادب پڑھا رہے تھے ۔ ایک اور سیکشن میں مولانا فیض احمد اصلاحی عربی انشاء پڑھا رہے تھے ۔ اچانک طلباء کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے ۔روئی کے گالوں کی دھنائی کے وقت جو آواز آتی ہے ، ہم سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں ، شٹاک شٹاک کی آواز تیز ہوتی جاتی ہے ،ہم سب طلباء سہم جاتے ہیں ۔ مولانا ایوب صاحب پوچھتے ہیں یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ ۔ دیکھو کیا ہو رہا ہے؟ ۔ایک طالب علم خوف زدہ انداز میں بتاتا ہے ، مولانا فیض صاحب طلباء کی پٹائی کر رہے ہیں ۔مولانا ایوب صاحب قران پڑھانا چھوڑ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، اور تیزی سے تقریبا دوڑتے ہوئے دوسری کلاس کی طرف بڑھتے ہیں ، مولانا کے ساتھ ہم سب یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ مولانا فیض اصلاحی صاحب کی چھڑی فضا میں معلق ہے ، ان کا چہرہ شر مندگی ، غصہ اور پسینے سے شرابور ہے ۔ ایک طالب علم کے ہاتھ کے اوپر مولانا احتشام الدین اصلاحی ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں، مارنا ہی ہے تو مجھے مار لو! مگر اللہ کے واسطے ان بچوں کو چھوڑ دو ۔اس واقعہ کے بعد مولانا فیض احمد اصلاحی نے طلباء کو پٹائی کرنا چھوڑ دیا ۔چھڑیوں کی اس اندھا دھُند فائرنگ میں خود استاد محترم فیض احمد اصلاحی کے صاحبزا دے بھی شدید زخمی ہوئے تھے ۔یہاں پر یہ بتاتا چلوں کے مولانا کو اس قدر شدید غصہ کیوں آ گیا تھا اعراب میں طلباء نے غلطی کر دی تھی ۔

۔۔۔مزید

فرقہ بندی کی تباہ کاریاں

 فرقہ بندی کی تباہ کاریاں
عادل اعظمی
  نئی دہلی
اسلام میں فرقوں کی ابتدا تو خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہی شروع ہو چکی تھی اور وہ فرقہ تھا خوارج کا جنہوں نے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر ہونے کا سرٹیفیکٹ دینا شروع کر دیا تھا اور جہنم کے دربان بن کر دھڑادھڑ اسمیں لوگوں کو گرانے لگے ۔ اس کی بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں شیعوں کا ظہور ہوا جو فلسفہ اور عقیدہ سے الگ ہٹ کر ایک اور ہی مسئلے پر اٹک گئے اور افضلیتِ علی کو لیکر فضیلتِ اسلام کو ہی مسخ کر دیا ۔ پھر عہد اموي میں کرامیہ، جہمیہ،قدریہ، روافض وغیرہ نامی فرقے رومی و ایرانی فلسفہ سے متاثر ہوکر اپنی غیر متوازن افکار لیکر نمودار ہوئے ۔ ان میں کوئی کہتا کہ ایمان ہی سب کچھ ہے اعمال تو محض دکھایا ہیں لہٰذا نماز روزہ وغیرہ غیر ضروری ہیں تو کوئی ایک قدم اور آگے بڑھ کر گناہ وغیرہ کو غیر مضر قرار دیتا ہے پھر کسی نے تقدیر کو سب کچھ بتا کر خدا کی صفات پر سوال کھڑا کر دیا اور کہا کی تقدیر میں جب سب متعین ہے تو گناہ کا کوئی نقصان نہیں اور کسی نے زور بیانی میں خدا کے علم غیب کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حوادث کی جانکاری تو خدا کو ہے مگر وہ اسمیں دخیل نہیں ہے ۔ پھر آیا عھد عباسی کا دور جسمیں مسلمانوں کی رسائی یونانی فلسفے سے ہوئی تو نیا فرقہ معتزلہ وجود میں آیا جس نے فلسفہ کو بنیاد بنا کر اسلامی عقائد پر شکوک و شبہات ظاہر کیے اور خلق قرآن کی بیکار بحثوں میں امت کو الجھا کر بے پناہ صلاحیتوں کا ضیاع کیا ۔ وقت گرنے کے ساتھ ساتھ سارے فرقے دم توڑ گئے مگر مصر میں فاطمی حکومت کے قیام اور شیعیت کے پولیٹائیزیشن نے شیعوں کو باقی رکھا ۔ برصغیر ہند میں جب حکومت کا ڈنڈا سر سے ہٹا تو خالص ہندو معاشرتی مزاج کے حامل مسلمانوں نے ایک الگ ہی اسلام کی ترجمانی شروع کردی اور اس قبیل کے لوگ دنیا میں جہاں بھی گئے وہاں بریلوی ،اہلحدیث،دیوبندی، شیعہ سنی فرقوں کی داغ بیل ڈالی اور اسے خوب چارہ پانی دیا ۔ طبیعت کا تکدر پھر بھی کم نہیں ہوا تو أئمہ اربع کو فرقے کی شکل دیدی اور حنفی شافعی مالکی حنبلی نامی فرقے وجود پکڑنے لگے بھلے ہی یہ توفیق عہد عباسی کے لوگوں کو نہ ہوئی جنکے دور میں یہ امام پیدا ہوئے اور انکی فقہ مدون ہوئی مگر ہم برصغیر کے جاہلوں نے فقہ کی بنیاد پر فرقہ بنا کر ہی دم لیا ۔ اب تو عالم یہ ہے کہ کافر قرار دینے کا سرٹیفیکٹ ساتھ لیکر گھومتے ہیں جب طبیعت مین زرا اضمحلال طاری ہوا جھٹ سے کسی کو کافر ہونے کی سند عطا کردی بھلے ہی اسنے کفر میں نہ تو ڈپلوما کیا ہو اور نہ ہی گریجویشن ۔ اگر کوئی دیوانہ اپنے مؤمن ہونے ہونے کی سند مانگ بیٹھے تو اللہ کو دلوں کا حال جاننے والا بتا کر دامن جھاڑ لیتے ہیں مگر انکی بابصیرت آنکھیں دلوں کے کفر پتہ نہیں کیسے دیکھ لیتی ہیں ۔

۔۔۔مزید

عقلی جمود

قاہرہ کے سب سے پرانے شاپنگ سینٹر ماوسکی اسٹریٹ کی بھیڑ باڑ سے نکل کر ہم اپنے چھوٹے سے احاطہ میں پہنچے۔ اس کی ایک طرف الازہر مسجد کا چوڑا سیدھا ماتھا تھا ۔ ایک دوہرے گیٹ اور سایہ زدہ پیش دالان سے گذر کر ہم مسجد کے صحن میں آئے ۔ قدیم محرابی راہداریوں میں گھرا ہوا چو کور احاطہ ۔لمبے گہرے رنگ کے جبوں اور سفید پگڑیوں میں ملبوس طلبا تنکوں سے بٹی چٹائیوں پر بیٹھے دھیمی آواز میں کتب اور مسودات پڑھ رہے تھے ۔ لیکچر پرے واقع مسجد کے مسجد کے کھلے اور وسیع و عریض ڈھکے ہوئے ہال میں دئے جاتے تھے ۔ متعدد اساتذہ بھی ستونوں کی ایک قطاروں کے درمیان بچھی چٹائیوں پر بیٹھتے اور ہر استاد کے سامنے طلبا کی ٹولیاں نیم دائرے بنا کر بیٹھی ہوتیں ۔ لیکچر دینے والا کبھی اپنی آواز بلند نہ کرتا ، لہذا اس کا ہر لفظ سننے کے لئے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت تھی ۔ آپ سوچتے کہ اس قسم کا انہماک حقیقی تبحر علمی کی طرف لیجاتا ہوگا لیکن شیخ المراغی نے جلد ہی میرے تمام وہم منتشر کر دئے ۔
اس نے مجھ سے پوچھا ۔: آپ ان طلبا کو دیکھ رہے ہیں ؟یہ ہندوستان کی مقدس گایوں کی طرح ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ گلیوں میں ملنے والا ہر طباعت شدہ کاغذ کھا جاتی ہیں ۔ جی ہاں وہ صدیوں قبل لکھے ہوئے کتب کے تمام چھپے ہوئے صفحات ہڑپ کر جاتے ہیں ، مگر انھیں ہضم نہیں کر پاتے ۔ یہ خود غور و فکر نہیں کرتے ، وہ پڑھتے اور دہرائی کرتے ہیں ، نسل در نسل ۔
میں نے بات کاٹی : لیکن شیخ مصطفی ، الازہر تو اسلامی علوم کا مرکز ہے اور دنیا کی قدیم ترین یو نیورسٹی ہے ۔ آپ اس کا نام مسلم ثقافتی تاریخ کے تقریبا ہر صفحہ پر دیکھتے ہیں ۔ گزشتہ دس صدیوں کے دوران یہاں پیدا ہونے والے عظیم مفکروں ، ماہرین الٰہیات ، مورخین ، فلسفیوں اور ریاضی دانوں کا کیا ہوا ؟۔
انھوں نے تاسف بھرے انداز میں جواب دیا ۔: اس نے کئی سو سال قبل انھیں پیدا کرنا بند کر دیا ۔ مانا کہ حالیہ ادوار میں کبھی کبھی الازہر سے کوئی آزاد مفکر ابھر کر سامنے آ گیا ۔ لیکن بحیثیت مجموعی الازہر بانجھ پن کا شکار ہو چکی ہے ۔ جس کا نقصان ساری مسلم دنیا کو ہو رہا ہے اور اس کی تحریک انگیز قوت بجھ چکی ہے ۔ان قدیم مسلم مفکرین ، جن کا آپ نے ذکر کیا ہے ۔ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ کئی سو سال بعد ان کے خیالات کو سمجھنے اور ترقی دئے جانے کے بجائے محض رٹا لگایا جائے گا ۔ کہ جیسے وہ مطلق اور ناقابل تر دید سچائیاں ہوں ۔ اگر کوئی بہتری لانی ہے تو موجودہ نقالی کے بجائے غور و فکر کی حوصلہ افزائی کرنا لازمی ہے۔۔۔ ۔
الازہر کے کر دار کے بارے میں شیخ المراغی کی صاف گوئی نے مجھے مسلم دنیا کو درپیش ثقافتی انحطاط کی عمیق ترین وجوہ میں سے ایک کو جاننے میں مدد دی ، کیا اس قدیم یو نیورسٹی کی متکلمانہ سڑاند مسلم حال کے سماجی بانجھ پن میں منعکس نہیں ہو تی تھی ، کیا اس عقلی جمود کا ہم مقام بہت سے مسلمانوں کی جانب سے غیر ضروری غربت کی مجہول تقریبا لاپر وا قبولیت ، متعدد ماجی خرابیوں کو چُپ چاپ سہنے میں نہیں ملے گا ۔
میں نے خود سے سوال کیا کہ کیا مسلم زوال کے انھیں  محسوس شواہد کی وجہ سے سارے مغرب میں خود اسلام کے متعلق تصور سرایت کر گئے تھے ۔۔۔۔
The Road to Makka ..189-190
written By : Muhammad Asad

۔۔۔مزید

ادیب کی ذمہ داری

میں جانتا ہوں کہ جسم کے خاص حصے لوگوں کو کھول کر نہیں دکھائے جاتے ، لیکن یہ نہیں جانتا کہ زخمی حصے بھی نہیں دکھائے جاتے ۔ سماج میں اگر کوئی ایسا ڈاکٹر ہے جس کا کام زخموں کا علاج کرنا ہے تو کیا ہو کسی کی سنتا ہے ؟ جو پک گیا ہے اسے باندھے رکھنا دوسروں کی نظروں کو اچھا لگ سکتا ہے ، لیکن جس آدمی کے جسم میں گھاو ہے اسے تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ فن کی تخلیق کے علاوہ ناول نگار کے ذمہ ایک اور اہم کام بھی ہے وہ کام اگر زخم دیکھنا ہے تو وہ اسے انجام دینا ہی ہوگا ۔

آوارہ مسیحا ۔وشنو پر بھاکر ۔ص 201


۔۔۔مزید

گاوں کے بارے میں


گاوں کے بارے میں گاوں کے لوگوں کو ہی لکھنا چاہئے ۔ شہر کے باشندے محض اپنے تخیل کی مدد سے گاوں کے بارے میں جو کچھ لکھیں گے ، یہ اس سے کہیں زیادہ حقیقت آمیز ہوگا ۔ دیہات میں پھیلی جہالت کا مقابلہ تعلیم کے پھیلاو سے ہی ہو سکتا ہے ۔جو لوگ یہ کام کرنا چاہتے ہیں انھیں دیہات سے دور دیگر ملکوں میں جا کر انسان بننا ہوگا ، لیکن کام کرنا ہوگا دیہات میں بیٹھ کر ہی ۔ اور دیہات کے اچھے برے لوگوں سے اچھی طرح رسم و راہ پیدا کر کے ۔ 

آوارہ مسیحا ۔ وشنو پر بھاکر ۔ ص 226

۔۔۔مزید