ہفتہ، 17 دسمبر، 2011

ایک شام دارالمصنفین __ مرقد شبلی پر محمد علم اللہ

ایک  شام 
دارالمصنفین __ مرقد شبلی پر
محمد علم اللہ
آج میں تربت شبلی سے ہوا محو کلام
ہے عجب حال کہ ملت کا نہیں کوئی امام 
راہرو جادہء اخلاص و وفا چھوڑ گئے  
ہے کہاں تجھ سا مجدد کہ بدل دے گا نظام 
خانقاہوں سے بزرگوں کی صدا آنے لگی 
اور رخصت ہوئی مسجد سے روایات عظام 
روح شبلی سے صدا آئی کہ اے میرے عزیز
زنگ آلود ہیں لوگوں کے ضمیر و اقلام
اپنی آنکھوں میں لیے اشک وہاں بیٹھا رہا
دل تڑپتا رہا انکھوں سے لہو بہتا رہا
ہائے وہ شبلیء مغفور کہ اپنے پیچھے 
کاروانوں کے لئے  راہ و نشاں چھوڑ گیا
جس نے تاریخ و ادب، فلسفہ و علم کلام 
حل کئے معنی ء پیچیدہ کے اسرار نہاں 
فکر و تحقیق میں اس کا نہیں ثانی کوئی 
شہ سواروں نے بہت سر کئے گر چہ میداں 
جس کے خامے میں عجب شان دلآویزی تھی
سیکڑوں لکھے مضامین ادق بے پایاں 
جس کے افکار میں اک ولولہ انگیزی تھی
اک ہمہ دان طبیعت تھی نوا خیزی تھی  
چند لمحوں میں سمٹ آئی ہوں جیسے صدیاں
ایک خورشید کے مانند افق پر چمکا 
جس نے تاریخ کے چہرے کو ضیا بخشی ہے
توڑ کر کہنہ نظاموں کے سبھی پیمانے  
منجمد ذہن کو بھی فکر رسا بخشی ہے 
باغباں بن کے سنوارا ہے چمن زاروں کو 
جس نے کانٹوں کو بھی پھولوں کی ادا بخشی ہے
کاسنی دھوپ اتر آئی ہو جیسے مجھ میں
چاندنی رات رواں جیسے گلستانوں میں
سر مئی شام خیالوں کی دھنک دور تلک 
جیسے روشن ہو شفق رنگ شبستانوں میں 
جیسے تکبیرخداوند جہاں گونج اٹھے
سال ہا سال سے خاموش اذاں خانوں میں
فکر کا جس نے نیا اک جہاں تعمیر کیا 
لفظ و معنی کو بھی در حلقہء زنجیر کیا 
آج بھی اس کی دعاؤں کااثر باقی ہے 
تھک گئے پاؤں مگر شوق سفر باقی ہے 
بجھ گئی آگ مگر سوز جگر باقی ہے 
رات باقی ہے ابھی نور سحر باقی ہے 
راکھ کے ڈھیر میں دیکھو کہ شرر باقی ہے 
ذہن تاریخ کے اوراق الٹتا ہی رہا
اور دل مرقد شبلی پر دھڑکتا ہی رہا
اے علم کیا کوئی شبلی سا جل اٹھے گا چراغ 
بجھ گئے سارے سر بزم، ہوئے خالی ایاغ
میں یہی سوچتا ہوا تربت شبلی سے لوٹ آیا
آنسوئوں کی لیے انکھوں میں نمی لوٹ آیا